الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل 44. باب مَا جَاءَ فِي بَيْعِ فَضْلِ الْمَاءِ باب: ضرورت سے زائد پانی کے بیچنے کا بیان۔
ایاس بن عبد مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی بیچنے سے منع فرمایا ۱؎۔
۱- ایاس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر، بہیسہ، بہیسہ کے باپ، ابوہریرہ، عائشہ، انس اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے پانی بیچنے کو ناجائز کہا ہے، یہی ابن مبارک شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- اور بعض اہل علم نے پانی بیچنے کی اجازت دی ہے، جن میں حسن بصری بھی شامل ہیں۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 63 (3478)، سنن النسائی/البیوع 88 (4666)، سنن ابن ماجہ/الرہون 18 (الأحکام 79 (2467)، (تحفة الأشراف: 1747)، و مسند احمد (3/317)، وسنن الدارمی/البیوع 69 (2654) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد نہر و چشمے وغیرہ کا پانی ہے جو کسی کی ذاتی ملکیت میں نہ ہو اور اگر پانی پر کسی طرح کا خرچ آیا ہو تو ایسے پانی کا بیچنا منع نہیں ہے مثلاً راستوں میں ٹھنڈا پانی یا مینرل واٹر وغیرہ بیچنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2476)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضرورت سے زائد پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے سبب گھاس سے روک دیا جائے“ ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرب والمساقاة 2 (2353)، صحیح مسلم/البیوع 29 (المساقاة 8) (1566)، سنن ابی داود/ البیوع 62 (3473)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 19 (2428)، (تحفة الأشراف: 1398)، وط/الأقضیة 25 (29) و مسند احمد (2/244، 273، 309)، 482، 494، 500) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ سوچ کر دوسروں کے جانوروں کو فاضل پانی پلانے سے نہ روکا جائے کہ جب جانوروں کو پانی پلانے کو لوگ نہ پائیں گے تو جانور ادھر نہ لائیں گے، اس طرح گھاس ان کے جانوروں کے لیے بچی رہے گی، یہ کھلی ہوئی خود غرضی ہے جو اسلام کو پسند نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2478)
|