اسحاق بن راہویہ کا شمار ان ائمہ میں ہوتا ہے جو صاحبِ مذہب، فقیہ و مجتہد تھے، مگر اب ان کا فقہی اور اجتہادی مذہب مٹ چکا ہے، لیکن ایک زمانہ میں یہ بھی مسلمانوں کا معمول بہ مسلک رہا ہے۔ امام احمد اور امام نسائی ان کے متعلق فرماتے ہیں: «”اِمَامٌ مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِيْنَ“»، یعنی ”مسلمانوں کے ائمہ میں سے ایک امام یہ بھی ہیں۔“ ایک مرتبہ امام احمد سے ان کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے امام ہیں، ہمارے نزدیک شافعی، حمیدی اور اسحاق تینوں امام ہیں۔ محمد بن یحییٰ ذہلی کا بیان ہے کہ ایک دن بغداد کے مقام رصافہ میں ائمہ محدثین امام احمد اور یحییٰ بن معین وغیرہ جمع تھے لیکن مجلسِ صدارت پر اسحاق بن راہویہ رونق افروز تھے اور وہی اس مجلس کے خطیب بھی تھے۔ محمد بن نصر فرماتے ہیں: وہ ہمارے اور ہمارے مشائخ کے شیخ تھے۔ فضل شعرانی کہتے ہیں: وہ بلاشک و شبہ خراسان کے امام تھے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں: «”أَحَدُ الْاَعْلَامِ وَعُلَمَاءِ الْإِسْلَامِ.“» علامہ ابن سبکی تحریر فرماتے ہیں: «”أَحَدُ أَئِمَّةِ الدِّيْنِ وَاَعْلَامِ الْمُسْلِمِيْنَ وَهُدَاةِ الْمُؤْمِنِيْنَ.“» دوسرے مؤرخین نے بھی ان کو «”أَحَدُ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ أَحَدٌ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِيْنَ وَعَلَمًا مِنْ أَعْلَامِ الدِّيْنِ.“» امامِ مشرق اور عالم نیشاپور وغیرہ لکھا ہے۔ [حواله مذكوره اختلاف صفحات و تاريخ ابن خلكان: 112/1 - البداية: 317/10 - ميزان الاعتدال: 86/1 - العبر: 446/1 - مرأة الجنان: 121/2 و شذرات الذهب: 89/2]