موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ -- کتاب: مساقاۃ کے بیان میں
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُسَاقَاةِ
مساقاۃ کا بیان
حدیث نمبر: 1402
وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَبْعَثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ إِلَى خَيْبَرَ، فَيَخْرُصُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ يَهُودِ خَيْبَرَ، قَالَ: فَجَمَعُوا لَهُ حَلْيًا مِنْ حَلْيِ نِسَائِهِمْ، فَقَالُوا لَهُ: هَذَا لَكَ، وَخَفِّفْ عَنَّا وَتَجَاوَزْ فِي الْقَسْمِ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ، وَاللَّهِ إِنَّكُمْ لَمِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللَّهِ إِلَيَّ، وَمَا ذَاكَ بِحَامِلِي عَلَى أَنْ أَحِيفَ عَلَيْكُمْ، فَأَمَّا مَا عَرَضْتُمْ مِنَ الرَّشْوَةِ، فَإِنَّهَا سُحْتٌ وَإِنَّا لَا نَأْكُلُهَا، فَقَالُوا: بِهَذَا قَامَتِ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ .
حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو بھیجتے تھے خبیر کی طرف، وہ پھلوں کا اور زمینوں کا اندازہ کر دیتے تھے، ایک بار یہودیوں نے اپنی عورتوں کا زیور جمع کیا اور سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو دینے لگے: یہ لے لو مگر ہمارے محصُول میں کمی کر دو۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے یہود! اللہ کی ساری مخلوق میں میں تم کو زیادہ بُرا سمجھتا ہوں، اس پر بھی میں نہیں چاہتا کہ تم پر ظلم کروں، اور جو تم مجھے رشوت دیتے ہو وہ حرام ہے، اس کو ہم لوگ نہیں کھاتے۔ اس وقت یہودی کہنے لگے: اس وجہ سے اب تک آسمان اور زمین قائم ہیں۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7532، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2318، 2319، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7202، والطبراني فى «الكبير» برقم: 15009، والشافعي فى «الاُم» ‏‏‏‏ برقم: 33/2، والشافعي فى «المسنده» برقم: 428/1، فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: إِذَا سَاقَى الرَّجُلُ النَّخْلَ، وَفِيهَا الْبَيَاضُ، فَمَا ازْدَرَعَ الرَّجُلُ الدَّاخِلُ فِي الْبَيَاضِ فَهُوَ لَهُ، قَالَ: وَإِنِ اشْتَرَطَ صَاحِبُ الْأَرْضِ أَنَّهُ يَزْرَعُ فِي الْبَيَاضِ لِنَفْسِهِ، فَذَلِكَ لَا يَصْلُحُ، لِأَنَّ الرَّجُلَ الدَّاخِلَ فِي الْمَالِ، يَسْقِي لِرَبِّ الْأَرْضِ، فَذَلِكَ زِيَادَةٌ ازْدَادَهَا عَلَيْهِ، قَالَ: وَإِنِ اشْتَرَطَ الزَّرْعَ بَيْنَهُمَا، فَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ، إِذَا كَانَتِ الْمَئُونَةُ كُلُّهَا عَلَى الدَّاخِلِ فِي الْمَالِ: الْبَذْرُ وَالسَّقْيُ وَالْعِلَاجُ كُلُّهُ، فَإِنِ اشْتَرَطَ الدَّاخِلُ فِي الْمَالِ عَلَى رَبِّ الْمَالِ، أَنَّ الْبَذْرَ عَلَيْكَ، كَانَ ذَلِكَ غَيْرَ جَائِزٍ، لِأَنَّهُ قَدِ اشْتَرَطَ عَلَى رَبِّ الْمَالِ زِيَادَةً ازْدَادَهَا عَلَيْهِ، وَإِنَّمَا تَكُونُ الْمُسَاقَاةُ عَلَى أَنَّ عَلَى الدَّاخِلِ فِي الْمَالِ: الْمَئُونَةَ كُلَّهَا، وَالنَّفَقَةَ، وَلَا يَكُونُ عَلَى رَبِّ الْمَالِ مِنْهَا شَيْءٌ، فَهَذَا وَجْهُ الْمُسَاقَاةِ الْمَعْرُوفُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب کسی شخص نے مساقات کے طور پر کھجور کا باغ لیا اور اس باغ میں خالی زمین بھی موجود ہے، تو اس شخص نے خالی زمین میں اور کچھ بویا وہ اسی کا ہو گا، اگر زمین کا مالک یہ شرط لگائے کہ خالی زمین میں بوؤں گا تو درست نہیں، اس واسطے کہ عامل کو اس زراعت میں بھی پانی دینا پڑے گا اور یہ زیادتی ہے عقد پر، البتہ اگر وہ زراعت دونوں میں مشترک ہو تو کچھ قباحت نہیں، جب محنت اور تخم اور زمین کا درست کرنا عامل پر ہو، اور دوسرے شخص کی صرف زمین ہو، اگر عامل نے زمین کے مالک سے یہ شرط لگائی کہ تخم تم دینا تو یہ درست نہیں، بلکہ مساقات صرف اسی طور سے درست ہے کہ محنت وغیرہ سب عامل پر ہو۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: فِي الْعَيْنِ تَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَيَنْقَطِعُ مَاؤُهَا، فَيُرِيدُ أَحَدُهُمَا أَنْ يَعْمَلَ فِي الْعَيْنِ، وَيَقُولُ الْآخَرُ: لَا أَجِدُ مَا أَعْمَلُ بِهِ، إِنَّهُ يُقَالُ لِلَّذِي يُرِيدُ أَنْ يَعْمَلَ فِي الْعَيْنِ اعْمَلْ وَأَنْفِقْ، وَيَكُونُ لَكَ الْمَاءُ كُلُّهُ، تَسْقِي بِهِ حَتَّى يَأْتِيَ صَاحِبُكَ بِنِصْفِ مَا أَنْفَقْتَ، فَإِذَا جَاءَ بِنِصْفِ مَا أَنْفَقْتَ، أَخَذَ حِصَّتَهُ مِنَ الْمَاءِ، وَإِنَّمَا أُعْطِيَ الْأَوَّلُ الْمَاءَ كُلَّهُ، لِأَنَّهُ أَنْفَقَ، وَلَوْ لَمْ يُدْرِكْ شَيْئًا بِعَمَلِهِ، لَمْ يَعْلَقِ الْآخَرَ مِنَ النَّفَقَةِ شَيْءٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک چشمہ پانی کا دو آدمیوں کا مشترک ہو پھر اس کا پانی بند ہو جائے، اب ایک شریک اس کی درستگی کے لیے دام خرچ کرنے کو موجود ہو اور دوسرا انکار کرے، تو جو شخص دام خرچ کر کے اس کو درست کرے وہ سارا پانی لیا کرے، جب تک اپنے شریک سے آدھا خرچ وصول نہ کرے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: وَإِذَا كَانَتِ النَّفَقَةُ كُلُّهَا، وَالْمَئُونَةُ عَلَى رَبِّ الْحَائِطِ، وَلَمْ يَكُنْ عَلَى الدَّاخِلِ فِي الْمَالِ شَيْءٌ، إِلَّا أَنَّهُ يَعْمَلُ بِيَدِهِ، إِنَّمَا هُوَ أَجِيرٌ بِبَعْضِ الثَّمَرِ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ، لِأَنَّهُ لَا يَدْرِي كَمْ إِجَارَتُهُ؟ إِذَا لَمْ يُسَمِّ لَهُ شَيْئًا يَعْرِفُهُ، وَيَعْمَلُ عَلَيْهِ لَا يَدْرِي أَيَقِلُّ ذَلِكَ أَمْ يَكْثُرُ؟.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر اور محنت سب باغ کے مالک کی ہو مگر عامل ہاتھ سے کچھ مشقت کیا کرے تو وہ مزدور سمجھا جائے گا بعوض ایک حصّے کے پھلوں میں سے، تو یہ درست نہیں، کیونکہ اُجرت مجہول ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: وَكُلُّ مُقَارِضٍ أَوْ مُسَاقٍ فَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَسْتَثْنِيَ مِنَ الْمَالِ وَلَا مِنَ النَّخْلِ شَيْئًا دُونَ صَاحِبِهِ، وَذَلِكَ أَنَّهُ يَصِيرُ لَهُ أَجِيرًا بِذَلِكَ، يَقُولُ: أُسَاقِيكَ عَلَى أَنْ تَعْمَلَ لِي فِي كَذَا وَكَذَا نَخْلَةً تَسْقِيهَا، وَتَأْبُرُهَا، وَأُقَارِضُكَ فِي كَذَا وَكَذَا مِنَ الْمَالِ، عَلَى أَنْ تَعْمَلَ لِي بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ لَيْسَتْ مِمَّا أُقَارِضُكَ عَلَيْهِ. فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَنْبَغِي، وَلَا يَصْلُحُ، وَذَلِكَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص قراض یا مساقاۃ کرے اس کو یہ نہیں پہنچتا کہ کچھ مال یا درخت اس میں سے مستثنیٰ کر لے کہ ان کے پھل میں لوں، کیونکہ اس میں دھوکا ہے۔
_x000D_

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: وَالسُّنَّةُ فِي الْمُسَاقَاةِ الَّتِي يَجُوزُ لِرَبِّ الْحَائِطِ أَنْ يَشْتَرِطَهَا عَلَى الْمُسَاقَى: شَدُّ الْحِظَارِ، وَخَمُّ الْعَيْنِ وَسَرْوُ الشَّرَبِ، وَإِبَّارُ النَّخْلِ، وَقَطْعُ الْجَرِيدِ، وَجَذُّ الثَّمَرِ هَذَا وَأَشْبَاهُهُ. عَلَى أَنَّ لِلْمُسَاقَى شَطْرَ الثَّمَرِ أَوْ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ. أَوْ أَكْثَرَ إِذَا تَرَاضَيَا عَلَيْهِ، غَيْرَ أَنَّ صَاحِبَ الْأَصْلِ لَا يَشْتَرِطُ ابْتِدَاءَ عَمَلٍ جَدِيدٍ، يُحْدِثُهُ الْعَامِلُ فِيهَا. مِنْ بِئْرٍ يَحْتَفِرُهَا، أَوْ عَيْنٍ يَرْفَعُ رَأْسَهَا، أَوْ غِرَاسٍ يَغْرِسُهُ فِيهَا، يَأْتِي بِأَصْلِ ذَلِكَ مِنْ عِنْدِهِ. أَوْ ضَفِيرَةٍ يَبْنِيهَا، تَعْظُمُ فِيهَا نَفَقَتُهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ باغ کا مالک عامل پر ان امور کی شرط کر سکتا ہے: باغ کا سوار درست رکھنا یعنی اس کی حد بندی قائم رکھنا، پانی کے چشمے صاف رکھنا، تہالی درختوں کی صاف رکھنا، درختوں کو صاف رکھنا، ان کی کانٹ چھانٹ کرنا، کھجور درخت پر سے کاٹنا اور جو اس کے مشابہ کا م ہیں، یہ اختیار ہے کہ عامل کے واسطے آدھے پھل مقرر کر ے یا کم و زیادہ، بشرطیکہ کہ دونوں رضامند ہو جائیں۔ زمین کے مالک کو یہ درست نہیں کہ عامل پر کسی نئی چیز کے بنانے کی شرط کرے، جیسے باؤلی یا کنواں کھودنے کی، یاچشمہ جاری کر نے کی، یا اور درخت لگانے کی، جس کی جڑیں عامل لے کر آئے، یا حوض بنانے کی، اس خیال سے کہ باغ کی آمدنی زیادہ ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: وَإِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ أَنْ يَقُولَ رَبُّ الْحَائِطِ لِرَجُلٍ مِنَ النَّاسِ: ابْنِ لِي هَاهُنَا بَيْتًا. أَوِ احْفِرْ لِي بِئْرًا. أَوْ أَجْرِ لِي عَيْنًا، أَوِ اعْمَلْ لِي عَمَلًا بِنِصْفِ ثَمَرِ حَائِطِي هَذَا قَبْلَ أَنْ يَطِيبَ ثَمَرُ الْحَائِطِ، وَيَحِلَّ بَيْعُهُ. فَهَذَا بَيْعُ الثَّمَرِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهُ. وَقَدْ نَهَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی مثال یہ ہے کہ گویا باغ کے مالک نے کسی سے کہا: تو میرے لیے ایک گھر بنا دے، یا کنواں کھود دے، یا چشمہ درست کرا دے، یا اور کوئی اس کے بدلے میں، میں تجھے اپنے باغ کے پھلوں میں سے آدھا حصّہ دوں گا، حالانکہ وہ پھل درست نہیں ہوئے، نہ ان کی بہتری کا حال معلوم ہے، یہ درست نہیں اس لیے کہ یہ بیع ہے پھلوں کی قبل ان کی بہتری معلوم ہونے کے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر پھل اچھے طور سے نکل آئے ہوں، اور ان کی بہتری کا یقین ہوگیا ہو، پھر کوئی شخص ان پھلوں کے بدلے میں ان کاموں میں سے کوئی کام کرے، تو کچھ قباحت نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: فَأَمَّا إِذَا طَابَ الثَّمَرُ، وَبَدَا صَلَاحُهُ، وَحَلَّ بَيْعُهُ، ثُمَّ قَالَ رَجُلٌ لِرَجُلٍ: اعْمَلْ لِي بَعْضَ هَذِهِ الْأَعْمَالِ، لِعَمَلٍ يُسَمِّيهِ لَهُ بِنِصْفِ ثَمَرِ حَائِطِي هَذَا. فَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ. إِنَّمَا اسْتَأْجَرَهُ بِشَيْءٍ مَعْرُوفٍ مَعْلُومٍ. قَدْ رَآهُ وَرَضِيَهُ. فَأَمَّا الْمُسَاقَاةُ، فَإِنَّهُ إِنْ لَمْ يَكُنْ لِلْحَائِطِ ثَمَرٌ، أَوْ قَلَّ ثَمَرُهُ أَوْ فَسَدَ. فَلَيْسَ لَهُ إِلَّا ذَلِكَ، وَأَنَّ الْأَجِيرَ لَا يُسْتَأْجَرُ إِلَّا بِشَيْءٍ مُسَمًّى. لَا تَجُوزُ الْإِجَارَةُ إِلَّا بِذَلِكَ. وَإِنَّمَا الْإِجَارَةُ بَيْعٌ مِنَ الْبُيُوعِ. إِنَّمَا يَشْتَرِي مِنْهُ عَمَلَهُ، وَلَا يَصْلُحُ ذَلِكَ إِذَا دَخَلَهُ الْغَرَرُ، لِأَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ.
امام مالک نے رحمہ اللہ فرمایا کہ ہمارے نزدیک مساقاۃ ہر قسم کے میوہ دار درختوں میں سے درست ہے، جیسے انگور اور کھجور اور زیتون اور انار اور زرد آلو وغیرہ میں، اس شرط سے کہ رب المال آدھے پھل لے یا کم و بیش باقی عامل لے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: السُّنَّةُ فِي الْمُسَاقَاةِ عِنْدَنَا، أَنَّهَا تَكُونُ فِي أَصْلِ كُلِّ نَخْلٍ، أَوْ كَرْمٍ أَوْ زَيْتُونٍ أَوْ رُمَّانٍ أَوْ فِرْسِكٍ. أَوْ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِنَ الْأُصُولِ. جَائِزٌ لَا بَأْسَ بِهِ. عَلَى أَنَّ لِرَبِّ الْمَالِ نِصْفَ الثَّمَرِ مِنْ ذَلِكَ، أَوْ ثُلُثَهُ أَوْ رُبُعَهُ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَقَلَّ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کھیت کا مالک اس کی خدمت سے عاجز ہو کر کسی سے مساقاۃ کرے تو درست ہے، جب کھیتی پھوٹ آئی ہو اور نکل چکی ہو۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: وَالْمُسَاقَاةُ أَيْضًا تَجُوزُ فِي الزَّرْعِ إِذَا خَرَجَ وَاسْتَقَلَّ، فَعَجَزَ صَاحِبُهُ عَنْ سَقْيِهِ وَعَمَلِهِ وَعِلَاجِهِ، فَالْمُسَاقَاةُ فِي ذَلِكَ أَيْضًا جَائِزَةٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جن درختوں میں سے مساقاۃ درست ہے اگر ان میں پھل لگ چکے ہوں اس طرح کہ ان کی بہتری کا یقین ہو گیا ہو، اور ان کی بیع درست ہوگئی ہو، تو اب ان میں مساقات درست نہیں، البتہ سال آئندہ کے واسطے درست ہے، لیکن اگر ان پھلوں کی بہتری کا یقین نہ ہو، اور بیع کے قابل نہ ہوئے تو ان میں مساقات درست ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: لَا تَصْلُحُ الْمُسَاقَاةُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْأُصُولِ مِمَّا تَحِلُّ فِيهِ الْمُسَاقَاةُ، إِذَا كَانَ فِيهِ ثَمَرٌ قَدْ طَابَ وَبَدَا صَلَاحُهُ وَحَلَّ بَيْعُهُ. وَإِنَّمَا يَنْبَغِي أَنْ يُسَاقَى مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ. وَإِنَّمَا مُسَاقَاةُ مَا حَلَّ بَيْعُهُ مِنَ الثِّمَارِ إِجَارَةٌ. لِأَنَّهُ إِنَّمَا سَاقَى صَاحِبَ الْأَصْلِ ثَمَرًا قَدْ بَدَا صَلَاحُهُ، عَلَى أَنْ يَكْفِيَهُ إِيَّاهُ وَيَجُذَّهُ لَهُ. بِمَنْزِلَةِ الدَّنَانِيرِ وَالدَّرَاهِمِ يُعْطِيهِ إِيَّاهَا، وَلَيْسَ ذَلِكَ بِالْمُسَاقَاةِ، إِنَّمَا الْمُسَاقَاةُ مَا بَيْنَ أَنْ يَجُذَّ النَّخْلَ إِلَى أَنْ يَطِيبَ الثَّمَرُ وَيَحِلَّ بَيْعُهُ. قَالَ مَالِكٌ: وَمَنْ سَاقَى ثَمَرًا فِي أَصْلٍ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهُ، وَيَحِلَّ بَيْعُهُ، فَتِلْكَ الْمُسَاقَاةُ بِعَيْنِهَا جَائِزَةٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ خالی زمین کو مساقات کے طور پر دینا درست نہیں، بلکہ کرایہ کو دینا درست ہے، اور جو شخص اپنی خالی زمین کسی کو دے اس واسطے کہ زراعت کرے، اور تہائی یا چوتھائی اس میں سے زمین کے عوض میں ٹھہرائے، تو یہ درست نہیں، کیونکہ اس میں دھوکا ہے، معلوم نہیں کھیت اُگتا ہے یا نہیں، پیک کم ہوتی ہے یا زیادہ۔ بلکہ اس کی مثال یہ ہے ایک شخص کسی کو سفر میں ساتھ چلنے کے لیے نوکر رکھے، پھر کہنے لگے میں اس سفر میں جو نفع کماؤں اس کا دسواں حصّہ تو لے، تو یہ درست نہیں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: وَلَا يَنْبَغِي أَنْ تُسَاقَى الْأَرْضُ الْبَيْضَاءُ، وَذَلِكَ أَنَّهُ يَحِلُّ لِصَاحِبِهَا كِرَاؤُهَا بِالدَّنَانِيرِ وَالدَّرَاهِمِ. وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِنَ الْأَثْمَانِ الْمَعْلُومَةِ. قَالَ: فَأَمَّا الرَّجُلُ الَّذِي يُعْطِي أَرْضَهُ الْبَيْضَاءَ بِالثُّلُثِ أَوِ الرُّبُعِ مِمَّا يَخْرُجُ مِنْهَا. فَذَلِكَ مِمَّا يَدْخُلُهُ الْغَرَرُ لِأَنَّ الزَّرْعَ يَقِلُّ مَرَّةً وَيَكْثُرُ مَرَّةً، وَرُبَّمَا هَلَكَ رَأْسًا، فَيَكُونُ صَاحِبُ الْأَرْضِ قَدْ تَرَكَ كِرَاءً مَعْلُومًا يَصْلُحُ لَهُ أَنْ يُكْرِيَ أَرْضَهُ بِهِ، وَأَخَذَ أَمْرًا غَرَرًا لَا يَدْرِي أَيَتِمُّ أَمْ لَا؟ فَهَذَا مَكْرُوهٌ. وَإِنَّمَا ذَلِكَ مَثَلُ رَجُلٍ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا لِسَفَرٍ بِشَيْءٍ مَعْلُومٍ. ثُمَّ قَالَ الَّذِي اسْتَأْجَرَ الْأَجِيرَ: هَلْ لَكَ أَنْ أُعْطِيَكَ عُشْرَ مَا أَرْبَحُ فِي سَفَرِي هَذَا إِجَارَةً لَكَ؟ فَهَذَا لَا يَحِلُّ وَلَا يَنْبَغِي. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا يَنْبَغِي لِرَجُلٍ أَنْ يُؤَاجِرَ نَفْسَهُ وَلَا أَرْضَهُ وَلَا سَفِينَتَهُ إِلَّا بِشَيْءٍ مَعْلُومٍ لَا يَزُولُ إِلَى غَيْرِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کھجور کے درختوں میں مسا قاۃ درست ہوئی اور خالی زمین پر درست نہیں ہوئی کیونکہ خالی زمین والا اپنی زمین کو کرایہ پر دے سکتا ہے اور کھجور والا اپنے پھلوں کو نہیں بیچ سکتا جب تک کہ اس کی بہتری کا یقین نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: وَإِنَّمَا فَرَّقَ بَيْنَ الْمُسَاقَاةِ فِي النَّخْلِ وَالْأَرْضِ الْبَيْضَاءِ أَنَّ صَاحِبَ النَّخْلِ لَا يَقْدِرُ عَلَى أَنْ يَبِيعَ ثَمَرَهَا حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ، وَصَاحِبُ الْأَرْضِ يُكْرِيهَا وَهِيَ أَرْضٌ بَيْضَاءُ لَا شَيْءَ فِيهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مساقات دو یا تین چار برس تک یا اس سے کم یا زیادہ درست ہے کھجور کے درختوں میں اور جو اس کے مانند ہو۔
_x000D_

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: وَالْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي النَّخْلِ أَيْضًا إِنَّهَا تُسَاقِي السِّنِينَ الثَّلَاثَ وَالْأَرْبَعَ وَأَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ وَأَكْثَرَ. قَالَ: وَذَلِكَ الَّذِي سَمِعْتُ. وَكُلُّ شَيْءٍ مِثْلُ ذَلِكَ مِنَ الْأُصُولِ بِمَنْزِلَةِ النَّخْلِ. يَجُوزُ فِيهِ لِمَنْ سَاقَى مِنَ السِّنِينَ مِثْلُ مَا يَجُوزُ فِي النَّخْلِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مساقات میں زمین کا مالک عامل ہے، جو کچھ ٹھہرا ہے اس سے زیادہ نہیں لے سکتا۔ سونا یا چاندی یا اناج یا اور کوئی چیز، اس طرح عامل مالک سے زیادہ کچھ نہیں لے سکتا۔
_x000D_

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ فِي الْمُسَاقِي إِنَّهُ: لَا يَأْخُذُ مِنْ صَاحِبِهِ الَّذِي سَاقَاهُ شَيْئًا مِنْ ذَهَبٍ وَلَا وَرِقٍ يَزْدَادُهُ، وَلَا طَعَامٍ، وَلَا شَيْئًا مِنَ الْأَشْيَاءِ. لَا يَصْلُحُ ذَلِكَ. وَلَا يَنْبَغِي أَنْ يَأْخُذَ الْمُسَاقَى مِنْ رَبِّ الْحَائِطِ شَيْئًا يَزِيدُهُ إِيَّاهُ، مِنْ ذَهَبٍ وَلَا وَرِقٍ وَلَا طَعَامٍ وَلَا شَيْءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ. وَالزِّيَادَةُ فِيمَا بَيْنَهُمَا لَا تَصْلُحُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مضاربت کا بھی یہی حکم ہے، اگر مضاربت یا مساقاۃ میں شرط سے زیادہ کچھ بھرے گا تو وہ اجارہ ہوگا، اور ایسا اجارۃ درست نہیں جس میں دھوکا ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: وَالْمُقَارِضُ أَيْضًا بِهَذِهِ الْمَنْزِلَةِ لَا يَصْلُحُ. إِذَا دَخَلَتِ الزِّيَادَةُ فِي الْمُسَاقَاةِ أَوِ الْمُقَارَضَةِ صَارَتْ إِجَارَةً، وَمَا دَخَلَتْهُ الْإِجَارَةُ فَإِنَّهُ لَا يَصْلُحُ، وَلَا يَنْبَغِي أَنْ تَقَعَ الْإِجَارَةُ بِأَمْرٍ غَرَرٍ. لَا يَدْرِي أَيَكُونُ أَمْ لَا يَكُونُ. أَوْ يَقِلُّ أَوْ يَكْثُرُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا اگر کوئی ایسی زمین کی مساقات کرے جس میں درخت بھی ہوں انگور کے یا کھجور کے اور خالی زمین بھی ہو، تو اگر خالی زمین تہائی یا تہائی سے کم ہو تو مساقات درست ہے، اور اگر خالی زمین زیادہ ہو اور درخت تہائی یا تہائی سے کم میں ہوں تو ایسی زمین کا کرایہ دینا درست ہے، مگر مساقات درست نہیں کیونکہ لوگوں کا یہ دستور ہے کہ زمین میں مساقات کیا کرتے ہیں اور اس میں تھوڑی سی زمین خالی بھی رہتی ہے، یا کرایہ دیتے ہیں اور تھوڑی سی زمین میں درخت بھی رہتے ہیں، یا جس مصحف یا تلوار میں چاندی لگی ہو اس کو چاندی کے بدلے میں بیچتے ہیں، یا ہار یا انگوٹھی کو جس میں سونا بھی ہو سونے کے بدلے میں بیچتے ہیں، اور ہمیشہ سے لوگ اس قسم کی خرید و فروخت کر تے چلے آئے ہیں۔ اور اس کی کوئی حد نہیں مقرر کی کہ اس قدر سونا یا چاندی ہو تو حلال ہے، اور اس سے زیادہ ہو تو حرام ہے، مگر ہمارے نزدیک لوگوں کے عمل درآمد کے موافق یہ حکم ٹھہرا ہے کہ جب مصحف یا تلوار یا انگوٹھی میں سونا چاندی تہائی قیمت کے برابر ہو، یا اس سے کم تو اس کی بیع چاندی یا سونے کے بدلے میں درست ہے، ورنہ درست نہیں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: فِي الرَّجُلِ يُسَاقِي الرَّجُلَ الْأَرْضَ فِيهَا النَّخْلُ وَالْكَرْمُ أَوْ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِنَ الْأُصُولِ فَيَكُونُ فِيهَا الْأَرْضُ الْبَيْضَاءُ، قَالَ مَالِكٌ: إِذَا كَانَ الْبَيَاضُ تَبَعًا لِلْأَصْلِ، وَكَانَ الْأَصْلُ أَعْظَمَ ذَلِكَ. أَوْ أَكْثَرَهُ. فَلَا بَأْسَ بِمُسَاقَاتِهِ. وَذَلِكَ أَنْ يَكُونَ النَّخْلُ الثُّلُثَيْنِ أَوْ أَكْثَرَ، وَيَكُونَ الْبَيَاضُ الثُّلُثَ أَوْ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ. وَذَلِكَ أَنَّ الْبَيَاضَ حِينَئِذٍ تَبَعٌ لِلْأَصْلِ. وَإِذَا كَانَتِ الْأَرْضُ الْبَيْضَاءُ فِيهَا نَخْلٌ أَوْ كَرْمٌ أَوْ مَا يُشْبِهُ ذَلِكَ مِنَ الْأُصُولِ فَكَانَ الْأَصْلُ الثُّلُثَ أَوْ أَقَلَّ. وَالْبَيَاضُ الثُّلُثَيْنِ أَوْ أَكْثَرَ. جَازَ فِي ذَلِكَ، الْكِرَاءُ وَحَرُمَتْ فِيهِ الْمُسَاقَاةُ. وَذَلِكَ أَنَّ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ أَنْ يُسَاقُوا الْأَصْلَ، وَفِيهِ الْبَيَاضُ وَتُكْرَى الْأَرْضُ وَفِيهَا الشَّيْءُ الْيَسِيرُ مِنَ الْأَصْلِ. أَوْ يُبَاعَ الْمُصْحَفُ أَوِ السَّيْفُ وَفِيهِمَا الْحِلْيَةُ مِنَ الْوَرِقِ بِالْوَرِقِ. أَوِ الْقِلَادَةُ أَوِ الْخَاتَمُ وَفِيهِمَا الْفُصُوصُ وَالذَّهَبُ بِالدَّنَانِيرِ، وَلَمْ تَزَلْ هَذِهِ الْبُيُوعُ جَائِزَةً يَتَبَايَعُهَا النَّاسُ وَيَبْتَاعُونَهَا، وَلَمْ يَأْتِ فِي ذَلِكَ شَيْءٌ مَوْصُوفٌ مَوْقُوفٌ عَلَيْهِ، إِذَا هُوَ بَلَغَهُ كَانَ حَرَامًا. أَوْ قَصُرَ عَنْهُ كَانَ حَلَالًا. وَالْأَمْرُ فِي ذَلِكَ عِنْدَنَا الَّذِي عَمِلَ بِهِ النَّاسُ وَأَجَازُوهُ بَيْنَهُمْ، أَنَّهُ إِذَا كَانَ الشَّيْءُ مِنْ ذَلِكَ الْوَرِقِ أَوِ الذَّهَبِ تَبَعًا لِمَا هُوَ فِيهِ جَازَ بَيْعُهُ، وَذَلِكَ أَنْ يَكُونَ النَّصْلُ أَوِ الْمُصْحَفُ أَوِ الْفُصُوصُ قِيمَتُهُ الثُّلُثَانِ، أَوْ أَكْثَرُ، وَالْحِلْيَةُ قِيمَتُهَا الثُّلُثُ أَوْ أَقَلُّ.

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»