الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب النِّكَاحِ نکاح کے احکام و مسائل 9. باب اسْتِئْذَانِ الثَّيِّبِ فِي النِّكَاحِ بِالنُّطْقِ وَالْبِكْرِ بِالسُّكُوتِ: باب: بیوہ کا نکاح میں اجازت دینا زبان سے ہے اور باکرہ کا سکوت سے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ کا نکاح نہ ہو جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے اور باکرہ کا بھی نکاح نہ ہو جب تک اس سے اذن نہ لیا جائے۔“ لوگوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! باکرہ سے اذن کیونکر لیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذن اس کا یہ ہے کہ چپ رہے۔“
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث اسی طرح مروی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جو لڑکی ایسی ہو کہ نکاح کر دیں اس کا اس کے گھر والے (یعنی ولی لوگ) تو کیا اس سے بھی اجازت لی جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اجازت لی جائے۔“ پھر انہوں نے فرمایا کہ وہ شرماتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اجازت اس کی یہی ہے کہ چپ ہو جائے۔“ (یعنی زبان سے ہاں، ہوں، ضروری نہیں)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ اپنے نکاح میں اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اور کنواری سے اس کے نکاح میں اجازت لی جائے اور اجازت اس کی چپ رہنا ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ اپنے ولی کی نسبت اپنے نفس کی زیادہ حق دار ہے اور کنواری سے اجازت طلب کی جائے اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔“
اسی سند سے مروی ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ اپنی ذات کی زیادہ حقدار ہے اپنے ولی سے (یعنی نکاح کی مختار ہے) اور کنواری سے اس کا باپ اس کی ذات کے لیے اجازت لے اور اجازت اس کی چپ رہنا ہے۔“ اور بعض وقت راوی نے کہا کہ ”اس کا چپ رہنا گویا اقرار کرنا ہے۔“
|