الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب السَّلَامِ سلامتی اور صحت کا بیان 4. باب النَّهْيِ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلاَمِ وَكَيْفَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ: باب: یہود اور نصاریٰ کو خود سلام نہ کرے اگر وہ کریں تو کیسے جواب دے، اس کا بیان۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کو اہل کتاب سلام کریں تو تم اس کے جواب میں «وَعَلَیٌکُمْ» کہو۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ! اہل کتاب ہم کو سلام کرتے ہیں ہم کیونکر جواب دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «وَعَلَیٌکُمْ» کہو۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود جب تم کو سلام کرتے ہیں تو ان میں سے ایک کہتا ہے: «السَّامُ عَلَيْكُمْ» یعنی تم مرو «سام» کے معنی موت ہے تو تم کہو: «عَلَيْكَ» یعنی تم مرو۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، یہودیوں نے اجازت چاہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی وہ آئے)، انہوں نے کہا: «السَّامُ عَلَيْكُمْ» ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا کہ تمہارے اوپر «سام» ہو اور لعنت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! اللہ جل جلالہ ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔“ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے سنا نہیں جو انہوں نے کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تو اس کا جواب دے دیا اور وعلیکم کہہ دیا۔“ (بس اتنا ہی جواب کافی تھا اور تم نے جو جواب دیا اس سے زیادہ سخت تھا اور ایسی سختی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے)۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں «عَلیْکُمْ» بغیر واؤ کے ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند یہودی آئے۔ انہوں نے کہا: «السَّامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «وَعَلَيْكُمْ» “، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: «بَلْ عَلَيْكُمُ السَّامُ وَالذَّامُ» یعنی تمہارے ہی اوپر موت ہو اور برائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! زبان بری نہ کرو۔“ انہوں نے کہا: آپ نے نہیں سنا یہود نے جو کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے سنا جو انہوں نے کہا اور کیا میں نے جواب نہیں دیا جو انہوں نے کہا وہ انہی پر پھیر دیا۔“
اعمش سے اس سند کے ساتھ روایت ہے اور اس میں یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی بات کو سمجھ گئیں انہوں نے برا بھلا کہا۔ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر کر عائشہ! کیونکہ اللہ تعالیٰ بدزبان کو پسند نہیں کرتا۔ ”تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَإِذَا جَاؤُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ» (۵۸- المجادلة:۸) یعنی ”جب وہ آتے ہیں تیرے پاس تو اس طور سے سلام کرتے ہیں کہ ویسا اللہ نے نہیں سلام کیا تجھ کو۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، یہود کے چند لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو کہا «السَّامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «وَعَلَيْكُمْ» “، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا غصے ہوئیں اور انہوں نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا ان کا کہنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے سنا اور اس کا جواب بھی دیا اور ہم جو دعا کرتے ہیں ان پر وہ قبول ہوتی ہے اور ان کی دعا قبول نہیں ہوتی۔“ (ایسا ہی ہوا کہ الٹی موت یہود پر پڑی مرے اور مارے گئے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود اور نصاریٰ کو اپنی طرف سے سلام مت کرو اور جب تم کسی یہودی یا نصرانی سے راہ میں ملو تو اس کو دبا دو تنگ راہ کی طرف۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
|