كِتَاب السَّلَامِ سلامتی اور صحت کا بیان The Book of Greetings 32. باب الطَّاعُونِ وَالطِّيَرَةِ وَالْكَهَانَةِ وَنَحْوِهَا: باب: طاعون، بدفالی اور کہانت کا بیان۔ Chapter: The Plague, Ill Omens, Soothsaying And The Like حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن محمد بن المنكدر ، وابي النضر مولى عمر بن عبيد الله، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه، انه سمعه يسال اسامة بن زيد ماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطاعون؟ فقال اسامة : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " الطاعون رجز او عذاب ارسل على بني إسرائيل او على من كان قبلكم، فإذا سمعتم به بارض فلا تقدموا عليه، وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه "، وقال ابو النضر: لا يخرجكم إلا فرار منه.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قال: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، وأبي النضر مولى عمر بن عبيد الله، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَسْأَلُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْد مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّاعُونِ؟ فَقَالَ أُسَامَةُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " الطَّاعُونُ رِجْزٌ أَوْ عَذَابٌ أُرْسِلَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ "، وقَالَ أَبُو النَّضْرِ: لَا يُخْرِجُكُمْ إِلَّا فِرَارٌ مِنْهُ. امام مالک نے محمد بن منکدر اور عمربن عبید اللہ کے آزاد کردہ غلام ابو نضر سے، انھوں نے عامر بن (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کی کہ انھوں نے سنا کہ وہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پو چھ رہے تھے۔آپ نے طاعون کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا،؟اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " طاعون (اللہ کی بھیجی ہو ئی) آفت یا عذاب ہے جو بنی اسرا ئیل پر بھیجا گیا یا (فرما یا) تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا جب تم سنو کہ وہ کسی سر زمین میں ہے تو اس سر زمین پر نہ جاؤ اور اگر وہ ایسی سر زمین میں واقع ہو جا ئے جس میں تم لو گ (مو جو د) ہو تو تم اس سے بھا گ کر وہاں سے نکلو۔" ابو نضر نے (یہ جملہ) کہا: "تمھیں اس (طاعون) سے فرار کے علاوہ کوئی اور بات (اس سر زمین سے) نہ نکا ل رہی ہو۔" حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کیا، آپ نے طاعون کے بارے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ تو حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاعون ایک قسم کا رجز یا عذاب ہے، جو بنی اسرائیل یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا، اس لیے جب تم کسی زمین میں اس کے موجود ہونے کے بارے میں سن لو تو وہاں نہ جاؤ، اور جب ایسی زمین میں پایا جائے، جہاں تم ہو تو اس سے ڈر کر نہ نکلوئ‘ ابو نضر کہتے ہیں، ”تمہیں اس سے فرار ہی نہ نکالے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب اورقتیبہ بن سعید نے کہا: ہمیں مغیرہ بن عبدالرحمان قرشی نے ابو نضرسے حدیث بیان کی، انھوں نےعامر بن سعد بن ابی وقاص سے رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "طاعون عذاب کی علامت ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں کچھ لوگوں کو طاعون میں مبتلاکیا، جب تم طاعون کے بارے میں سنو تو وہاں مت جاؤ اور جب اس سرزمین میں طاعون واقع ہوجائے جہاں تم ہوتو وہاں سے مت بھاگو۔" یہ قعنبی کی حدیث ہے، قتیبہ نے بھی اس طرح بیا ن کیاہے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاعون، عذاب کی علامت ہے، اللہ عزوجل نے اپنے کچھ بندوں کو اس میں مبتلا کیا، سو جب تم اس کے بارے میں سنو تو وہاں نہ جاؤ، اور جب کسی ایسی جگہ واقع ہو جائے، جہاں تم ہو تو اس سے مت بھاگو۔“ یہ قعنبی کی روایت ہے اور قتیبہ کی بھی اس جیسی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان نے محمد بن منکدرسے، انھوں نے عامر بن سعد سے، انھوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "یہ طاعون ایک عذاب ہے جوتم سے پہلے لوگوں پر مسلط کیا گیا تھا، یا (فرمایا:) بنی اسرائیل پر مسلط کیاگیا تھا، اگر یہ کسی علاقےمیں ہوتو تم اس سے بھاگ کر وہاں سے نہ نکلنا اور اگر کسی (دوسری) سر زمین میں (طاعون) موجود ہوتو تم اس میں داخل نہ ہونا۔" حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ طاعون ایک عذاب ہے، جو تم سے پہلے لوگوں یا بنی اسرائیل پر مسلط کیا گیا، سو جب یہ کسی علاقہ میں ہو تو وہاں سے اس سے بھاگ کر نہ نکلو اور جب کسی جگہ ہو تو وہاں نہ جاؤ۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني محمد بن حاتم ، حدثنا محمد بن بكر ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني عمرو بن دينار ، ان عامر بن سعد اخبره، ان رجلا سال سعد بن ابي وقاص عن الطاعون، فقال اسامة بن زيد انا اخبرك عنه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هو عذاب او رجز ارسله الله على طائفة من بني إسرائيل او ناس كانوا قبلكم، فإذا سمعتم به بارض فلا تدخلوها عليه، وإذا دخلها عليكم فلا تخرجوا منها فرارا ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، أَنَّ عَامِرَ بْنَ سَعْدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ عَنِ الطَّاعُونِ، فَقَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَنَا أُخْبِرُكَ عَنْهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هُوَ عَذَابٌ أَوْ رِجْزٌ أَرْسَلَهُ اللَّهُ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ نَاسٍ كَانُوا قَبْلَكُمْ، فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا عَلَيْهِ، وَإِذَا دَخَلَهَا عَلَيْكُمْ فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا فِرَارًا ". ابن جریج نے کہا: مجھے عمرو بن دینار نے بتایا کہ عامر بن سعد نے انھیں خبر دی کہ کسی شخص نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے طاعون کے بارے میں سوال کیا تو (وہاں موجود) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تمھیں اس کے بارے میں بتاتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ ایک عذاب یاسزا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا تھا، یا (فرمایا:) ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے، لہذا تم جب کسی سرزمین میں اس کے (پھیلنے کے) متعلق سنو تو اس میں اس کے ہوتے ہوئے داخل نہ ہونا اور جب یہ تم پر وار د ہوجائے تو اس سےبھاگ کروہاں سے نہ نکلنا۔" حضرت عامر بن سعد بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے طاعون کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہما کہنے لگے، اس کے بارے میں میں تمہیں بتاتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک عذاب اور دکھ ہے، جو اللہ نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ یا تم سے پہلے کچھ لوگوں پر بھیجا، سو جب تم کسی زمین میں اس کا پایا جانا سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب یہ تمہارے علاقہ میں پڑ جائے تو اس سے بھاگتے ہوئے نہ نکلو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حماد بن زید اور سفیان بن عینیہ دونوں نے عمرو بن دینار سے ابن جریج کی سند کے ساتھ اسی کی حدیث کےمانند حدیث بیان کی۔ یہی روایت امام صاحب کو تین اور اساتذہ نے سنائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یونس نے ابن شہاب سے، انھوں نے عامر بن سعد سے خبر دی، انھوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی: " کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بیماری (طاعون ایک) عذاب ہے جو تم سے پہلے ایک امت کو ہوا تھا۔ پھر وہ زمین میں رہ گیا۔ کبھی چلا جاتا ہے، کبھی پھر آتا ہے۔ لہٰذا جو کوئی کسی ملک میں سنے کہ وہاں طاعون ہے، تو وہ وہاں نہ جائے اور جب اس کے ملک میں طاعون نمودار ہو تو وہاں سے بھاگے بھی نہیں۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ درد یا بیماری ایک عذاب ہے، جس سے تم سے پہلی بعض امتوں کو دکھ پہنچایا گیا، پھر بعد میں زمین میں رہ گیا، سو کبھی آ جاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے تو جس نے کسی زمین میں اس کا پایا جانا سن لیا تو وہ وہاں نہ جائے اور جو ایسی زمین میں رہتا ہو، جہاں یہ وباء ہے تو اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے بالکل نہ نکلے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معمر نے زہری سے یونس کی سند کے ساتھ اسی (یونس) کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی۔ یہی روایت امام صاحب کو ایک اور استاد نے سنائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن شعبة ، عن حبيب ، قال: كنا بالمدينة، فبلغني ان الطاعون قد وقع بالكوفة، فقال لي عطاء بن يسار وغيره: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا كنت بارض فوقع بها، فلا تخرج منها، وإذا بلغك انه بارض فلا تدخلها "، قال: قلت عمن قالوا: عن عامر بن سعد يحدث به، قال: فاتيته، فقالوا: غائب، قال: فلقيت اخاه إبراهيم بن سعد ، فسالته، فقال: شهدت اسامة يحدث سعدا، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن هذا الوجع رجز او عذاب او بقية عذاب عذب به اناس من قبلكم، فإذا كان بارض وانتم بها فلا تخرجوا منها، وإذا بلغكم انه بارض فلا تدخلوها "، قال حبيب: فقلت لإبراهيم: آنت سمعت اسامة يحدث سعدا وهو لا ينكر، قال: نعم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ حَبِيبٍ ، قال: كُنَّا بِالْمَدِينَةِ، فَبَلَغَنِي أَنَّ الطَّاعُونَ قَدْ وَقَعَ بِالْكُوفَةِ، فَقَالَ لِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ وَغَيْرُهُ: إن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا كُنْتَ بِأَرْضٍ فَوَقَعَ بِهَا، فَلَا تَخْرُجْ مِنْهَا، وَإِذَا بَلَغَكَ أَنَّهُ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلْهَا "، قَالَ: قُلْتُ عَمَّنْ قَالُوا: عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ يُحَدِّثُ بِهِ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَقَالُوا: غَائِبٌ، قَالَ: فَلَقِيتُ أَخَاهُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: شَهِدْتُ أُسَامَةَ يُحَدِّثُ سَعْدًا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ رِجْزٌ أَوْ عَذَابٌ أَوْ بَقِيَّةُ عَذَابٍ عُذِّبَ بِهِ أُنَاسٌ مِنْ قَبْلِكُمْ، فَإِذَا كَانَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا، وَإِذَا بَلَغَكُمْ أَنَّهُ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا "، قَالَ حَبِيبٌ: فَقُلْتُ لِإِبْرَاهِيمَ: آنْتَ سَمِعْتَ أُسَامَةَ يُحَدِّثُ سَعْدًا وَهُوَ لَا يُنْكِرُ، قَالَ: نَعَمْ. ابن ابی عدی نے شعبہ سے انھوں نے حبیب (بن ابی ثابت اسدی) سے روایت کی، کہا: ہم مدینہ میں تھے تو مجھے خبر پہنچی کہ کو فہ میں طاعون پھیل گیا ہے تو عطاء بن یسار اور دوسرے لو گوں نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا تھا: جب تم کسی سر زمین میں ہوا ور وہاں طاعون پھیل جا ئے تو تم اس سر زمین سے مت نکلواور جب تم کو یہ خبر پہنچے کہ وہ کسی سر زمین میں پھیل گیا ہے تو تم اس میں مت جاؤ۔" کہا: میں نے پو چھا: (حدیث) کس سے روایت کی گئی؟ ان سب نے کہا: عامر بن سعد سے وہی یہ حدیث بیان کرتے تھے۔ کیا: تو میں ان کے ہاں پہنچا، ان کے (گھر کے) لوگوں نے کہا: وہ موجود نہیں، تو میں ان کے بھا ئی ابرا ہیم بن سعد سے ملا اور ان سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: میں اسامہ رضی اللہ عنہ کے پاس مو جو د تھا جب وہ (میرے والد) حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو حدیث بیان کررہے تھے۔ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "یہ بیماری سزا اور عذاب ہے یاعذاب کا بقیہ حصہ ہے جس میں تم سے پہلے کے لو گوں کو مبتلا کیا گیا تھا۔تو جب یہ کسی سر زمین میں پھیل جائے اور تم وہیں ہو تو وہاں سے باہر مت نکلواور جب تمھیں خبر پہنچے کہ یہ کسی سر زمین میں ہے تو اس میں مت جاؤ۔"حبیب نے کہا: میں نے ابرا ہیم (بن سعد) سے کہا: کیا آپ نے (خود) اسامہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث سنا رہے تھے اور وہ اس کا انکا ر نہیں کر رہے تھے؟انھوں نے کہا: ہاں۔ حبیب بیان کرتے ہیں، ہم مدینہ میں تھے تو مجھے پتہ چلا کوفہ میں طاعون پڑ گیا ہے تو مجھے عطاء بن یسار اور دوسروں نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”جب تم کسی علاقہ میں ہو اور وہاں یہ پڑ جائے تو وہاں سے نہ نکلو اور جب تمہیں پتہ چل جائے کہ وہ کسی علاقہ میں ہے تو وہاں نہ جاؤ“ میں نے پوچھا، یہ روایت کس نے بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا یہ حدیث عامر بن سعد بیان کرتے ہیں، میں ان کے ہاں گیا تو بتایا گیا، وہ موجود نہیں ہے تو میں ان کے بھائی ابراہیم بن سعد کو ملا اور اس کے بارے میں اس سے پوچھا؟ اس نے کہا، میری موجودگی میں حضرت اسامہ ؓ نے حضرت سعد کو بتایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”یہ درد، رجز اور عذاب ہے، یا عذاب کا باقی حصہ ہے، جس سے تم سے پہلے لوگوں کو دکھ پہنچایا گیا، لہذا اگر یہ ایسے علاقہ میں ہو، جہاں تم موجود ہو تو وہاں سے نکلو نہیں اور جب تمہیں پتہ چلے کہ وہ کسی زمین (علاقہ) میں ہے تو وہاں نہ جاؤ“ حبیب کہتے ہیں، میں نے ابراہیم سے کہا، کیا آپ نے اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ حدیث سناتے سنا ہے اور وہ انکار نہیں کر رہے تھے؟ اس نے کہا، ہاں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبید اللہ بن معاذ کے والد نے کہا: ہمیں شعبہ نے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث سنا ئی مگر انھوں نے حدیث کے آغاز میں عطاء بن یسار کا واقعہ بیان نہیں کیا۔ یہی روایت امام صاحب کو ایک اور استاد نے سنائی، لیکن عطاء بن یسار والا ابتدائی واقعہ بیان نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان نے حبیب سے، انھوں نے ابرا ہیم بن سعد سے، انھوں نے حضرت سعد بن مالک، حضرت حزیمہ بن ثابت اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " آگے شعبہ کی حدیث کے ہم معنی ہے۔ امام صاحب یہی روایت، ابراہیم بن سعد، سعد بن مالک، خزیمہ بن ثابت اور اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اعمش نے حبیب سے، انھوں نے ابرا ہیم بن سعد بن ابی وقاص سے روایت کی، کہا: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیٹھے ہو ئے احادیث بیان کررہے تھے۔تو ان دونوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس طرح ان سب کی حدیث ہے۔ ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں، اسامہ بن زید اور سعد رضی اللہ تعالی عنہما دونوں بیٹھے باہمی گفتگو کر رہے تھے تو دونوں نے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
شیبانی نے حبیب بن ابی ثابت سے، انھوں نے ابرا ہیم بن سعد بن مالک سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سب کی بیان کردہ حدیث کے مطا بق روایت کی۔ یہی روایت امام صاحب کو ایک اور استاد نے سنائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب ، عن عبد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، عن عبد الله بن عباس ، ان عمر بن الخطاب خرج إلى الشام حتى إذا كان بسرغ لقيه اهل الاجناد ابو عبيدة بن الجراح واصحابه، فاخبروه ان الوباء قد وقع بالشام، قال ابن عباس: فقال عمر : ادع لي المهاجرين الاولين، فدعوتهم، فاستشارهم واخبرهم ان الوباء قد وقع بالشام، فاختلفوا، فقال بعضهم: قد خرجت لامر ولا نرى ان ترجع عنه، وقال بعضهم: معك بقية الناس، واصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى ان تقدمهم على هذا الوباء، فقال: ارتفعوا عني، ثم قال ادع لي الانصار، فدعوتهم له، فاستشارهم، فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم، فقال: ارتفعوا عني، ثم قال: ادع لي من كان هاهنا من مشيخة قريش من مهاجرة الفتح فدعوتهم، فلم يختلف عليه رجلان، فقالوا: نرى ان ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوباء، فنادى عمر في الناس إني مصبح على ظهر فاصبحوا عليه، فقال ابو عبيدة بن الجراح: افرارا من قدر الله، فقال عمر: لو غيرك قالها يا ابا عبيدة، وكان عمر يكره خلافه، نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله، ارايت لو كانت لك إبل فهبطت واديا له عدوتان إحداهما خصبة والاخرى جدبة، اليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله، وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله، قال: فجاء عبد الرحمن بن عوف وكان متغيبا في بعض حاجته، فقال : إن عندي من هذا علما، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا سمعتم به بارض فلا تقدموا عليه، وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه "، قال: فحمد الله عمر بن الخطاب، ثم انصرف.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، قال: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ إِلَى الشَّامِ حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أَهْلُ الْأَجْنَادِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَالَ عُمَر ُ: ادْعُ لِي الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ، فَدَعَوْتُهُمْ، فَاسْتَشَارَهُمْ وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ، فَاخْتَلَفُوا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ وَلَا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ، وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ ادْعُ لِي الْأَنْصَارِ، فَدَعَوْتُهُمْ لَهُ، فَاسْتَشَارَهُمْ، فَسَلَكُوا سَبِيلَ الْمُهَاجِرِينَ وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلَافِهِمْ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ لِي مَنْ كَانَ هَاهُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْفَتْح فَدَعَوْتُهُمْ، فَلَمْ يَخْتَلِفْ عَلَيْهِ رَجُلَانِ، فَقَالُوا: نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلَا تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ، فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ إِنِّي مُصْبِحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ: أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ، فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ، وَكَانَ عُمَرُ يَكْرَهُ خِلَافَهُ، نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَتْ لَكَ إِبِلٌ فَهَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ إِحْدَاهُمَا خَصْبَةٌ وَالْأُخْرَى جَدْبَةٌ، أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الْخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ، وَإِنْ رَعَيْتَ الْجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ، قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَكَانَ مُتَغَيِّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ، فَقَال َ: إِنَّ عِنْدِي مِنْ هَذَا عِلْمًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ "، قَالَ: فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، ثُمَّ انْصَرَفَ. امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبدالحمید بن عبدالرحمان بن زید بن خطاب سے، انھوں نے عبداللہ بن عبداللہ بن حارث بن نوفل سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے۔ جب (تبوک کے مقام) سرغ پر پہنچے تو لشکر گاہوں کے امراء میں سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب نے آپ سے ملاقات کی۔اور یہ بتایا کہ شام میں وبا پھیل گئی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے سامنے مہاجرین اوّلین کو بلاؤ۔ (مہاجرین اوّلین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہو) میں نے ان کو بلایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ لیا اور ان سے بیان کیا کہ شام کے ملک میں وبا پھیلی ہوئی ہے۔ انہوں نے اختلاف کیا۔ بعض نے کہا کہ آپ ایک اہم کام کے لئے نکلے ہوئے ہیں اس لئے ہم آپ کا لوٹنا مناسب نہیں سمجھتے۔ بعض نے کہا کہ تمہارے ساتھ وہ لوگ ہیں جو اگلوں میں باقی رہ گئے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں اور ہم ان کو وبائی ملک میں لے جانا مناسب نہیں سمجھتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب تم لوگ جاؤ۔ پھر کہا کہ انصار کے لوگوں کو بلاؤ۔ میں نے ان کو بلایا تو انہوں نے ان سے مشورہ لیا۔ انصار بھی مہاجرین کی چال چلے اور انہی کی طرح اختلاف کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ جاؤ۔ پھر کہا کہ اب قریش کے بوڑھوں کو بلاؤ جو فتح مکہ سے پہلے یا (فتح کے ساتھ ہی) مسلمان ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو بلایا اور ان میں سے دو نے بھی اختلاف نہیں کیا، سب نے یہی کہا کہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو لے کر لوٹ جائیے اور ان کو وبا کے سامنے نہ کیجئے۔ آخر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں منادی کرا دی کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہوں گا (اور مدینہ لوٹوں گا) تم بھی سوار ہو جاؤ۔ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تقدیر سے بھاگتے ہو؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کاش یہ بات کوئی اور کہتا (یا اگر اور کوئی کہتا تو میں اس کو سزا دیتا) { اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ برا جانتے تھے ان کا خلاف کرنے کو } ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔ کیا اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ایک وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک کنارہ سرسبز اور شاداب ہو اور دوسرا خشک اور خراب ہو اور تم اپنے اونٹوں کو سرسبز اور شاداب کنارے میں چراؤ تو اللہ کی تقدیر سے چرایا اور جو خشک اور خراب میں چراؤ تب بھی اللہ کی تقدیر سے چرایا (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اس چرواہے پر کوئی الزام نہیں ہے بلکہ اس کا فعل قابل تعریف ہے کہ جانوروں کو آرام دیا ایسا ہی میں بھی اپنی رعیت کا چرانے والا ہوں تو جو ملک اچھا معلوم ہوتا ہے ادھر لے جاتا ہوں اور یہ کام تقدیر کے خلاف نہیں ہے بلکہ عین تقدیر الٰہی ہے)؟ اتنے میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اور وہ کسی کام کو گئے ہوئے تھے، انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو اس مسئلہ کی دلیل موجود ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب تم سنو کہ کسی ملک میں وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تمہارے ملک میں وبا پھیلے تو بھاگو بھی نہیں۔ کہا: اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔پھر (اگلےدن) روانہ ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب شام جانے کے لیے نکلے، جب سرغ نامی جگہ پر پہنچے، انہیں لشکروں کے کمانڈر، ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھی ملے اور انہیں بتایا، شام میں وباء پھیل چکی ہے، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میرے پاس مہاجرین اولین کو بلا کر لاؤ تو میں نے ان کو بلایا، سو انہوں نے ان سے مشورہ طلب کیا اور انہیں بتایا، شام میں وباء پھیل چکی ہے، ان میں اختلاف ہو گیا، بعض نے کہا، آپ ایک مقصد کی خاطر نکلے ہیں، اس لیے ہم اس سے آپ کی واپسی مناسب خیال نہیں سمجھتے اور بعض نے کہا آپ کے ساتھ بہترین لوگ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں، ہمارے خیال میں آپ انہیں، اس وبائی علاقہ میں نہ لے جائیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، تم میرے پاس سے چلے جاؤ، پھر انہوں نے کہا، میرے پاس انصار کو بلا لاؤ، میں نے ان کو ان کے پاس بلا لایا تو انہوں نے ان سے مشورہ طلب کیا، انہوں نے بھی مہاجرین کی راہ اپنائی اور ان کی طرح اختلاف کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میرے پاس سے چلے جاؤ، پھر کہا، میرے پاس فتح مکہ کے وقت ہجرت کرنے والے قریش کے عمر رسیدہ اشخاص کو بلاؤ، سو میں نے ان کو بلایا ان میں سے دو شخصوں نے بھی اختلاف نہ کیا، سب نے کہا، ہم سمجھتے ہیں، آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور انہیں اس وبائی علاقہ میں نہ لے جائیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں میں اعلان کروا دیا، میں کل صبح سواری پر سوار ہو جاؤں گا، اس لیے تم بھی سوار ہو جانا، اس پر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے کہا، کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہو؟ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے کاش! کسی اور نے یہ کہا ہوتا، اے ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عمر، ابو عبیدہ کی مخالفت کو پسند نہیں کرتے تھے، ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں، بتائیے، اگر آپ کے پاس اونٹ ہوں اور آپ ایسی وادی میں اتریں، جس کے دو کنارے ہوں، ایک کنارہ سرسبز و شاداب ہو اور دوسرا خشک، بنجر اور ویران، کیا ایسے نہیں ہے، اگر آپ سرسبز و شاداب کنارے میں چرائیں گے تو یہ اللہ کی تقدیر سے ہو گا اور اگر بنجر اور ویران کنارے سے چرائیں گے تو یہ بھی تقدیر الٰہی سے ہو گا؟ اتنے میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ آ گئے، وہ اپنی کسی ضرورت کی بنا پر غائب تھے تو انہوں نے کہا، میرے پاس اس کے بارے میں یقینی علم ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جب تم اس کا کسی علاقہ میں پڑنا سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب یہ ایسے علاقہ میں پڑ جائے، جہاں تم ہو تو اس سے بھاگتے ہوئے نہ نکلو۔“ اس پر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا، (کہ ان کی رائے حدیث کے مطابق تھی) پھر واپس روانہ ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، ومحمد بن رافع ، وعبد بن حميد ، قال ابن رافع: حدثنا، وقال الآخران: اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر بهذا الإسناد نحو حديث مالك وزاد في حديث معمر، قال: وقال له ايضا: ارايت انه لو رعى الجدبة وترك الخصبة اكنت معجزه، قال: نعم، قال: فسر إذا قال، فسار حتى اتى المدينة، فقال: هذا المحل، او قال: هذا المنزل إن شاء الله،وحدثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْد ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ وَزَادَ فِي حَدِيثِ مَعْمَرٍ، قال: وَقَالَ لَهُ أَيْضًا: أَرَأَيْتَ أَنَّهُ لَوْ رَعَى الْجَدْبَةَ وَتَرَكَ الْخَصْبَةَ أَكُنْتَ مُعَجِّزَهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَسِرْ إِذًا قَالَ، فَسَارَ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ، فَقَالَ: هَذَا الْمَحِلُّ، أَوَ قَالَ: هَذَا الْمَنْزِلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، معمر نے ہمیں اسی سند کے ساتھ مالک کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور معمر کی حدیث میں یہ الفاظ زائد بیان کیے، کہا: اور انہوں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے ان (ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ) سے یہ بھی کہا: آپ کا کیا حال ہے کہ اگر وہ (اونٹ) بنجر کنارے پر چرے اور سرسبز کنارے کو چھوڑ دے تو کیا آپ اسے اس کے عجز اور غلطی پر محمول کریں گے؟انھوں نے کہا: ہاں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو پھر چلیں۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) کہا: وہ چل کر مدینہ آئے اور کہا: ان شاء اللہ! یہی (کجاوے) کھولنے کی، یاکہا: یہی اترنے کی جگہ ہے۔ امام صاحب کے تین اور اساتذہ یہی روایت بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں یہ اضافہ ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے یہ بھی کہا، بتائیے، اگر وہ سرسبز و شاداب جگہ کو چھوڑ کر بے آب و گیاہ، بنجر علاقہ میں مویشی چرائے، کیا تم اسے عاجز و بے بس قرار دو گے؟ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ہاں، کہا تو تب چلئے تو حضرت عمر روانہ ہو گئے، حتی کہ مدینہ پہنچ گئے اور کہنے لگے، یہی محل اور موقع ہے، ان شاءاللہ۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یونس نے اسی سند کے ساتھ ابن شہاب سے خبر دی، مگر انھوں نے کہا: بلاشبہ عبداللہ بن حارث نے انھیں حدیث سنائی اور"عبداللہ بن عبداللہ" نہیں کہا۔ یہی روایت امام صاحب کو دو اور اساتذہ سے سنائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ سے، روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہو ئے، جب سرغ پہنچے تو ان کو یہ اطلا ع ملی کہ شام میں وبا نمودار ہو گئی ہے۔تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انھیں بتا یا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: " جب تم کسی علاقے میں اس (وبا) کی خبر سنو تو وہاں نہ جا ؤ اور جب تم کسی علاقے میں ہواور وہاں وبا نمودار ہو جا ئے تو اس وبا سے بھا گنے کے لیے وہاں سے نہ نکلو۔"اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سرغ سے لوٹ آئے۔ اور ابن شہاب سے روایت ہے، انھوں نے سالم بن عبد اللہ سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے لوگوں کو لے کر لوٹ آئے۔ حضرت عبداللہ بن عامر ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے تو جب سرغ مقام پر پہنچے، انہیں اطلاع ملی کہ شام میں وبا پھیل چکی ہے تو انہیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”جب تم کسی علاقہ میں اس کا ہونا سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب تمہارے علاقہ میں پڑ جائے تو اس سے بھاگتے ہوئے وہاں نہ نکلو۔“ اس وجہ سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سرغ مقام سے واپس لوٹ آئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|