سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بعض کام ہم جاہلیت کے زمانے میں کیا کرتے تھے، ہم کاہنوں کے پاس جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب کاہنوں کے پاس مت جاؤ۔“ ہم نے کہا: ہم برا شگون لیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ خیال ہے جو تمہارے دل میں گزرتا ہے لیکن اس خیال کی وجہ سے تم کوئی اپنا کام نہ چھوڑو۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا اس میں اتنا زیادہ ہے کہ میں نے کہا: بعض لوگ لکیریں کھینچتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک پیغمبر بھی لکیریں کرتے تھے پھر اگر کوئی اسی طرح کرے تو خیر۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! بعض باتیں ہم سے نجومی کہتے اور وہ سچ نکلتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سچ بات جن اس کو اچک لیتا ہے اور اپنے دوستوں کے کان میں ڈال دیتا ہے اور سو جھوٹ اس میں بڑھا دیتا ہے۔“
حدثني سلمة بن شبيب ، حدثنا الحسن بن اعين ، حدثنا معقل وهو ابن عبيد الله ، عن الزهري ، اخبرني يحيي بن عروة ، انه سمع عروة ، يقول: قالت عائشة : سال اناس رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الكهان، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليسوا بشيء "، قالوا: يا رسول الله فإنهم يحدثون احيانا الشيء يكون حقا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تلك الكلمة من الجن يخطفها الجني، فيقرها في اذن وليه قر الدجاجة، فيخلطون فيها اكثر من مائة كذبة ".حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ وَهُوَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي يَحْيَي بْنُ عُرْوَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ ، يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ : سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكُهَّانِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسُوا بِشَيْءٍ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَانًا الشَّيْءَ يَكُونُ حَقًّا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْجِنِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ، فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَةِ، فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لغو ہیں کچھ اعتبار کے لائق نہیں۔“ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! بعض باتیں ان کی سچ نکلتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچی بات وہی ہے جس کو جن اڑا لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے جیسے مرغ مرغی کو بلاتا ہے دانے کے لیے (اور دوسرا مرغ اس کی آواز کو سمجھ جاتا ہے اسی طرح جن کی بات اس کا دوست سمجھ لیتا ہے اور لوگ نہیں سمجھتے) پھر وہ اس میں اپنی طرف سے سو جھوٹ سے بھی زیادہ ملاتے ہیں۔“(اور لوگوں سے کہتے ہیں)۔
حدثنا حسن بن علي الحلواني ، وعبد بن حميد ، قال حسن: حدثنا يعقوب ، وقال عبد: حدثني يعقوب بن إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابى عن صالح ، عن ابن شهاب ، حدثني علي بن حسين ، ان عبد الله بن عباس ، قال: اخبرني رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم من الانصار، انهم بينما هم جلوس ليلة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، رمي بنجم فاستنار، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ماذا كنتم تقولون في الجاهلية إذا رمي بمثل هذا؟ "، قالوا: الله ورسوله اعلم، كنا نقول ولد الليلة رجل عظيم ومات رجل عظيم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فإنها لا يرمى بها لموت احد، ولا لحياته، ولكن ربنا تبارك وتعالى اسمه، إذا قضى امرا سبح حملة العرش، ثم سبح اهل السماء الذين يلونهم حتى يبلغ التسبيح اهل هذه السماء الدنيا، ثم قال الذين يلون حملة العرش لحملة العرش: ماذا قال ربكم؟، فيخبرونهم ماذا قال، قال: فيستخبر بعض اهل السماوات بعضا حتى يبلغ الخبر هذه السماء الدنيا، فتخطف الجن السمع فيقذفون إلى اوليائهم ويرمون به، فما جاءوا به على وجهه فهو حق، ولكنهم يقرفون فيه، ويزيدون ".حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْد ، قَالَ حَسَنٌ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، وَقَالَ عَبد: حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حدثنا أبى عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، قال: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَنْصَارِ، أَنَّهُمْ بَيْنَمَا هُمْ جُلُوسٌ لَيْلَةً مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رُمِيَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَاذَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا رُمِيَ بِمِثْلِ هَذَا؟ "، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، كُنَّا نَقُولُ وُلِدَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ عَظِيمٌ وَمَاتَ رَجُلٌ عَظِيمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّهَا لَا يُرْمَى بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ، إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هَذِهِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا، ثُمَّ قَالَ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟، فَيُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قَالَ، قَالَ: فَيَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا حَتَّى يَبْلُغَ الْخَبَرُ هَذِهِ السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَتَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَيَقْذِفُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ وَيُرْمَوْنَ بِهِ، فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ، وَلَكِنَّهُمْ يَقْرِفُونَ فِيهِ، وَيَزِيدُونَ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، مجھ سے ایک انصاری صحابی نے بیان کیا کہ وہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے، اتنے میں ایک ستارہ ٹوٹا اور بہت چمکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جاہلیت کے زمانے میں کیا کہتے تھے جب ایسا واقعہ ہوتا۔“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے، لیکن ہم جاہلیت کے زمانے میں یوں کہتے: آج کی رات کوئی بڑا شخص پیدا ہوا یا مرا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تارہ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے کے لیے نہیں ٹوٹتا لیکن ہمارا مالک جل جلالہ جب کچھ حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسبیح کرتے ہیں پھر ان کی آواز سن کر ان کے پاس والے آسمان کے فرشتے تسبیح کہتے ہیں یہاں تک تسبیح کی نوبت دنیا کے آسمان والوں تک پہنچتی ہے پھر جو لوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں سے قریب ہیں وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا حکم دیا تمہارے مالک نے، وہ بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح آسمان والے ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ خبر اس دنیا کے آسمان والوں تک آتی ہے ان سے وہ خبر جن اڑا لیتے ہیں اور اپنے دوستوں کو آ کر سناتے ہیں۔ فرشتے جب ان جنوں کو دیکھتے ہیں تو ان تاروں سے مارتے ہیں (تو یہ تارے ان کے کوڑے ہیں) پھر جو خبر جن لاتے ہیں اگر اتنی ہی کہیں تو سچ ہے لیکن وہ جھوٹ ملاتے ہیں اس میں اور زیادہ کرتے ہیں۔“
صفیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بی بی سے سنا، وہ کہتی تھیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص عراف کے پاس جائے (عراف کی تفسیر اوپر گزری) اس سے کوئی بات پوچھے تو اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہو گی۔“