الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْعِلْمِ علم کا بیان 5. باب رَفْعِ الْعِلْمِ وَقَبْضِهِ وَظُهُورِ الْجَهْلِ وَالْفِتَنِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ: باب: آخر زمانہ میں علم کی کمی ہونا۔
سیدنا انس بن مالک سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کی نشانیوں میں ہے کہ علم اٹھ جائے گا (یعنی دین کا علم لوگ کم حاصل کریں گے دنیا میں غرق ہو جائیں گے) اور جہالت قائم ہو جائے گی یا پھیل جائے گی اور شراب پی جائے گی اور زنا ظاہر کھلم کھلا ہو گا۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کیا میں تم سے ایک حدیث بیان نہ کروں جس کو میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور میرے بعد کوئی شخص ایسا تم سے یہ حدیث بیان نہ کرے گا جس نے اس کو سنا ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی زنا کھلم ہو گا اور شراب پی جائے گی اور مرد کم ہو جائیں گے یہاں تک پچاس عورتوں کے لیے ایک مرد ہو گا جو ان کی خبر گیری کرے گا۔“ (یعنی لڑایئوں میں مرد بہت مارے جائیں گے) اور عورتیں رہ جائیں گی۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے کچھ دن ایسے ہوں گے جن میں علم اٹھ جائے گا اور جہالت اترے گی اور کشت و خون بہت ہو گا۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ قریب ہو جائے گا زمانہ اور اٹھا لیا جائے گا علم (یعنی زمانہ قیامت کے قریب ہو جائے گا) اور عالم میں فساد پھیلیں گے اور دلوں میں بخیلی ڈالی جائے گی (لوگ زکوٰۃ اور خیرات نہ دیں گے) اور «هرج» بہت ہو گا، لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! «هرج» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کشت و خون۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کرتے ہیں لیکن اس میں بخیلی کا ذکر نہیں ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ اس طرح پر علم نہ اٹھائے گا کہ لوگوں کے دلوں سے چھین لے لیکن اس طرح اٹھائے گا کہ عالموں کو اٹھا لے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا تو لوگ اپنے سردار جاہلوں کو بنا لیں گے وہ بن جانے فتویٰ دیں گے اور خود گمراہ ہوں گے اور اوروں کو بھی گمراہ کریں گے۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ راوی حدیث نے کہا: میں نے ایک سال بعد دوبارہ عبداللہ سے اس حدیث کو پوچھا تو انہوں نے اسی طرح بیان کیا۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
سیدنا عروہ بن الزبیر سے روایت ہے، مجھ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے بھانجے میرے! مجھے خبر ہوئی ہے کہ عبداللہ بن عمرو ہمارے اوپر گزریں گے حج کے لیے، تم ان سے ملو اور علم کی باتیں پوچھو کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت علم کی باتیں حاصل کی ہیں۔ عروہ نے کہا: مین ان سے ملا اور بہت سی باتیں پو چھیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیں۔ عروہ نے کہا: ان باتوں میں یہ بھی ایک حدیث تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ علم لوگوں سے ایک ہی دفعہ نہیں چھین لے گا لیکن عالموں کو اٹھا لے گا ان کے ساتھ علم بھی اٹھ جائے گا اور لوگوں کے سردار جاہل رہ جائیں گے جو بغیر علم فتوے دیں گے پھر گمراہ ہوں گے اور گمراہ کریں گے۔“ عروہ نے کہا: جب میں نے یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی، انہوں نے اس کو بڑا سمجھا اس حدیث کا انکار کیا (اس خیال سے کہ کہیں عبداللہ بن عمرو کو شبہ نہ ہوا ہو یا انہوں نے حکمت کی کتابوں میں یہ مضمون پڑھا ہو اور غلطی سے اس کو حدیث قرار دیا ہو) اور کہا: کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے، عروہ نے کہا: جب دوسرا سال آیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا: جا عبداللہ بن عمرو سے مل پھر ان سے بات چیت کر یہاں تک کہ پوچھ ان سے وہ حدیث جو علم کے باب میں انہوں نے تجھ سے بیان کی تھی, عروہ نے کہا: میں پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے یہ حدیث پوچھی۔ انہوں نے اسی طرح بیان کیا جیسے پہلی بار مجھ سے بیان کیا تھا، عروہ نے کہا: جب میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ بیان کیا تو انہوں نے کہا: میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو سچا جانتی ہوں اور انہوں نے اس حدیث میں نہ زیادتی کی نہ کمی کی (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی بار جو انکار کیا وہ اس وجہ سے نہ تھا کہ عبداللہ بن عمرو کو جھوٹا سمجھا بلکہ اس خیال سے کہ شاید ان کو شبہ نہ ہو گیا ہو، جب دوبارہ بھی انہوں نے حدیث کو اسی طرح بیان کیا تو وہ خیال جاتا رہا)۔
|