كِتَابُ الْإِيمَان ایمان کا بیان بہتر چیز کے لیے قسم توڑنے کا بیان
سیدنا ھدم جرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی پاس گیا تو وہ مرغى کھا رہے تھے، کہنے لگے: آؤ کھاؤ۔ میں نے کہا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ مرغى نہیں کھاؤں گا۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: کھاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے کھاتے دیکھا ہے اور میں تجھے تیرى قسم کے متعلق بھى بتاؤں گا۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھى تھے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوارى مانگ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا لى کہ میں تم کو سوارى نہیں دوں گا اور نہ ہى میرے پاس کوئی سوارى ہے۔ پس اللہ کى قسم ہم زیادہ دیر نہیں ٹھہرے کہ کچھ سفید چوٹیوں والى اونٹنیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اونٹنیاں دینے کا حکم دیا۔ جب ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کى قسم یاد آئی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کون سى چیز واپس لائى ہے۔“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں آپ کى قسم یاد آگئى اور ہم ڈر گئے کہ کہیں آپ بھول نہ گئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کى قسم! میں بھولا نہیں ہوں گا۔ مگر جو شخص کسى چیز پر قسم کھا لے، پھر اس کے مقابل دوسرى کو بہتر سمجھے تو وہ بہتر کام کرے اور اپنى قسم کا کفارہ دے دے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6649، 6680، 6718، 6719، 6721، 7555، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1649، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4354، 5222، 5255، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3788، 3789، 4357، 4358، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4702، 4703، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3276، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1826، 1827، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2099، 2100، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2107، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19467، 19541، وأحمد فى «مسنده» برقم: 13033، 13827، والحميدي فى «مسنده» برقم: 783، 784، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 644، والطبراني فى «الصغير» برقم: 150، والترمذي فى «الشمائل» برقم: 154، 156»
حكم: صحیح
|