سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
أبواب السفر
کتاب: سفر کے احکام و مسائل
The Book on Traveling
41. باب مَا جَاءَ فِي التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ
باب: سفر میں نفل پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Voluntary Prayers While Traveling
حدیث نمبر: 550
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث بن سعد، عن صفوان بن سليم، عن ابي بسرة الغفاري، عن البراء بن عازب، قال: " صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثمانية عشر شهرا فما رايته ترك الركعتين إذا زاغت الشمس قبل الظهر ". قال: وفي الباب عن ابن عمر. قال ابو عيسى: حديث البراء حديث غريب، قال: وسالت محمدا عنه فلم يعرفه إلا من حديث الليث بن سعد، ولم يعرف اسم ابي بسرة الغفاري ورآه حسنا، وروي عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " لا يتطوع في السفر قبل الصلاة ولا بعدها " وروي عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان " يتطوع في السفر " ثم اختلف اهل العلم بعد النبي صلى الله عليه وسلم، فراى بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ان يتطوع الرجل في السفر، وبه يقول: احمد، وإسحاق، ولم تر طائفة من اهل العلم ان يصلى قبلها ولا بعدها، ومعنى من لم يتطوع في السفر قبول الرخصة ومن تطوع فله في ذلك فضل كثير، وهو قول اكثر اهل العلم يختارون التطوع في السفر.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: " صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرَا فَمَا رَأَيْتُهُ تَرَكَ الرَّكْعَتَيْنِ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ وَرَآهُ حَسَنًا، وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " لَا يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا بَعْدَهَا " وَرُوِيَ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ " يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ " ثُمَّ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَى بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَطَوَّعَ الرَّجُلُ فِي السَّفَرِ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَلَمْ تَرَ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَلَّى قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا، وَمَعْنَى مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ فِي السَّفَرِ قَبُولُ الرُّخْصَةِ وَمَنْ تَطَوَّعَ فَلَهُ فِي ذَلِكَ فَضْلٌ كَثِيرٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ التَّطَوُّعَ فِي السَّفَرِ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ مہینے رہا۔ لیکن میں نے سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے کی دونوں رکعتیں کبھی بھی آپ کو چھوڑتے نہیں دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- براء رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہ اسے صرف لیث بن سعد ہی کی روایت سے جان سکے اور وہ ابوبسرہ غفاری کا نام نہیں جان سکے اور انہوں نے اسے حسن جانا ۱؎،
۳- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۴- ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں نہ نماز سے پہلے نفل پڑھتے تھے اور نہ اس کے بعد ۲؎،
۵- اور ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سفر میں نفل پڑھتے تھے ۳؎،
۶- پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اہل علم میں اختلاف ہو گیا، بعض صحابہ کرام کی رائے ہوئی کہ آدمی نفل پڑھے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،
۷- اہل علم کے ایک گروہ کی رائے نہ نماز سے پہلے کوئی نفل پڑھنے کی ہے اور نہ نماز کے بعد۔ سفر میں جو لوگ نفل نہیں پڑھتے ہیں ان کا مقصود رخصت کو قبول کرنا ہے اور جو نفل پڑھے تو اس کی بڑی فضیلت ہے۔ یہی اکثر اہل علم کا قول ہے وہ سفر میں نفل پڑھنے کو پسند کرتے ہیں ۴؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 276 (1222) (تحفة الأشراف: 1924) (ضعیف) (اس کے راوی ”ابوبُسرہ الغفاری“ لین الحدیث ہیں)»

وضاحت:
۱؎: دیگر سارے لوگوں نے ان کو مجہول قرار دیا ہے، اور مجہول کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
۲؎ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔
۳؎: اس بابت سب سے صحیح اور واضح حدیث ابن عمر کی ہے، جو رقم ۵۴۴ پر گزری، ابن عمر رضی الله عنہما کی دلیل نقلی بھی ہے اور عقلی بھی کہ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما سنت راتبہ نہیں پڑھتے تھے، دوسرے اگر سنت راتبہ پڑھنی ہوتی تو اصل فرض میں کمی کرنے کا جو مقصد ہے وہ فوت ہو جاتا، اگر سنت راتبہ پڑھنی ہو تو فرائض میں کمی کا کیا معنی؟ رہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اسفار میں چاشت وغیرہ پڑھنے کی بات، تو بوقت فرصت عام نوافل کے سب قائل ہیں۔
۴؎: عام نوافل پڑھنے کے تو سب قائل ہیں مگر سنن راتبہ والی احادیث سنداً کمزور ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (222) // عندنا برقم (263 / 1222) //
حدیث نمبر: 551
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا حفص بن غياث، عن الحجاج، عن عطية، عن ابن عمر، قال: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم الظهر في السفر ركعتين وبعدها ركعتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد رواه ابن ابي ليلى، عن عطية، ونافع، عن ابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ فِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ، وَنَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعںیی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ابن ابی لیلیٰ نے یہ حدیث عطیہ اور نافع سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7336) (ضعیف الإسناد، منکر المتن، لمخالفة حدیث رقم: 544) (اس کے راوی ”عطیہ عوفی“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد - منكر المتن لمخالفته لحديثه المتقدم (542) وغيره //
حدیث نمبر: 552
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد المحاربي يعني الكوفي، حدثنا علي بن هاشم، عن ابن ابي ليلى، عن عطية، ونافع، عن ابن عمر، قال: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم في الحضر والسفر، فصليت معه في الحضر الظهر اربعا وبعدها ركعتين، وصليت معه في السفر الظهر ركعتين، وبعدها ركعتين والعصر ركعتين ولم يصل بعدها شيئا، والمغرب في الحضر والسفر سواء ثلاث ركعات لا تنقص في الحضر ولا في السفر هي وتر النهار وبعدها ركعتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن. سمعت محمدا، يقول: ما روى ابن ابي ليلى حديثا اعجب إلي من هذا، ولا اروي عنه شيئا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ يَعْنِي الْكُوفِيَّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ، وَنَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي الْحَضَرِ الظُّهْرَ أَرْبَعًا وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي السَّفَرِ الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ وَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَهَا شَيْئًا، وَالْمَغْرِبَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ سَوَاءً ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ لَا تَنْقُصُ فِي الْحَضَرِ وَلَا فِي السَّفَرِ هِيَ وِتْرُ النَّهَارِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: مَا رَوَى ابْنُ أَبِي لَيْلَى حَدِيثًا أَعْجَبَ إِلَيَّ مِنْ هَذَا، وَلَا أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضر اور سفر دونوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، میں نے آپ کے ساتھ حضر میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں، اور اس کے بعد دو رکعتیں، اور سفر میں آپ کے ساتھ ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں، اور اس کے بعد کوئی چیز نہیں پڑھی۔ اور مغرب کی سفر و حضر دونوں ہی میں تین رکعتیں پڑھیں۔ نہ حضر میں کوئی کمی کی نہ سفر میں، یہ دن کی وتر ہے اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابن ابی لیلیٰ نے کوئی ایسی حدیث روایت نہیں کی جو میرے نزدیک اس سے زیادہ تعجب خیز ہو، میں ان کی کوئی روایت نہیں لیتا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7337 و8428) (ضعیف الإسناد، منکر المتن) (اس کے راوی ”محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ“ ضعیف ہیں، اور یہ حدیث صحیح احادیث کے خلاف ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد، منكر المتن انظر ما قبله (551)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.