حدثنا عبد الله بن يوسف، والقعنبي، قالا: اخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد، عن ابي ايوب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يحل لامرئ مسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث، فيلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذي يبدا بالسلام.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُوسُفَ، وَالْقَعْنَبِيُّ، قَالاَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثٍ، فَيَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلامِ.“
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔ وہ دونوں ملتے ہیں تو ایک منہ ادھر کر لیتا ہے اور دوسرا ادھر، اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الأدب، ح: 6077 و مسلم، ح: 2560»
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله قال: حدثني محمد بن جعفر بن ابي كثير، عن يعقوب بن زيد التيمي، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، ان رجلا مر على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في مجلس فقال: السلام عليكم، فقال: ”عشر حسنات“، فمر رجل آخر فقال: السلام عليكم ورحمة الله، فقال: ”عشرون حسنة“، فمر رجل آخر فقال: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، فقال: ”ثلاثون حسنة“، فقام رجل من المجلس ولم يسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ما اوشك ما نسي صاحبكم، إذا جاء احدكم المجلس فليسلم، فإن بدا له ان يجلس فليجلس، وإذا قام فليسلم، ما الاولى باحق من الآخرة.“حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ زَيْدٍ التَّيْمِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلاً مَرَّ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي مَجْلِسٍ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ: ”عَشْرُ حَسَنَاتٍ“، فَمَرَّ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ، فَقَالَ: ”عِشْرُونَ حَسَنَةً“، فَمَرَّ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَقَالَ: ”ثَلاَثُونَ حَسَنَةً“، فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْمَجْلِسِ وَلَمْ يُسَلِّمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَا أَوْشَكَ مَا نَسِيَ صَاحِبُكُمْ، إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمُ الْمَجْلِسَ فَلْيُسَلِّمْ، فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَجْلِسَ فَلْيَجْلِسْ، وَإِذَا قَامَ فَلْيُسَلِّمْ، مَا الأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الآخِرَةِ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے۔ اس نے السلام علیکم کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس نیکیاں (اس کو مل گئیں)“، پھر ایک دوسرا آدمی گزرا تو اس نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ الله! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کے لیے) بیس نیکیاں ہیں۔“ پھر ایک تیسرا آدمی گزرا تو اس نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ! تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کو) تیس نیکیاں مل گئیں۔“ پھر ایک شخص مجلس سے اٹھا اور جاتے ہوئے سلام نہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا ساتھی کس قدر جلد بھولنے والا ہے۔ جب تم میں سے کوئی مجلس میں آئے تو سلام کہے۔ اگر مناسب سمجھے تو بیٹھ جائے، اور جب اٹھے تو سلام کہے، کیونکہ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ اہم نہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح ابن حبان (ابن بلبان)، ح: 493»
حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد بن جعفر، قال: حدثنا شعبة، عن عبد الملك بن ميسرة، عن زيد بن وهب، عن عمر قال: كنت رديف ابي بكر، فيمر على القوم فيقول: السلام عليكم، فيقولون: السلام عليكم ورحمة الله، ويقول: السلام عليكم ورحمة الله، فيقولون: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، فقال ابو بكر: فضلنا الناس اليوم بزيادة كثيرة. حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثني عبد الملك، عن زيد، قال: حدثنا عمر، مثله.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: كُنْتُ رَدِيفَ أَبِي بَكْرٍ، فَيَمُرُّ عَلَى الْقَوْمِ فَيَقُولُ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، فَيَقُولُونَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ، وَيَقُولُ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ، فَيَقُولُونَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَضَلَنَا النَّاسُ الْيَوْمَ بِزِيَادَةٍ كَثِيرَةٍ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ، مِثْلَهُ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے سوار تھا۔ وہ جب بھی کسی قوم کے پاس سے گزرتے تو السلام علیکم کہتے اور لوگ جواباً السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ السلام عليكم ورحمۃ اللہ کہتے تو وہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہتے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آج تو لوگ فضیلت میں ہم سے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ ایک دوسری سند سے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے۔
حدثنا إسحاق، قال: اخبرنا عبد الصمد، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن عائشة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ما حسدكم اليهود على شيء ما حسدوكم على السلام والتامين.“حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”مَا حَسَدَكُمُ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ مَا حَسَدُوكُمْ عَلَى السَّلامِ وَالتَّأْمِينِ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہودی سلام اور آمین پر جتنا تم سے حسد کرتے ہیں اتنا کسی چیز پر نہیں کرتے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: سنن ابن ماجه، إقامة الصلاة و السنة فيها، ح: 856»
حدثنا شهاب، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن حميد، عن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن السلام اسم من اسماء الله تعالى، وضعه الله في الارض، فافشوا السلام بينكم.“حَدَّثَنَا شِهَابٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنَّ السَّلامَ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللهِ تَعَالَى، وَضَعَهُ اللَّهُ فِي الأَرْضِ، فَأَفْشُوا السَّلامَ بَيْنَكُمْ.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”السلام الله تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے زمین میں رکھا ہے، لہٰذا سلام کو آپس میں عام کرو۔“
تخریج الحدیث: «حسن: المعجم الكبير للطبراني: 182/10 عن ابن مسعود»
حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا محل قال: سمعت شقيق بن سلمة ابا وائل يذكر، عن ابن مسعود قال: كانوا يصلون خلف النبي صلى الله عليه وسلم قال القائل: السلام على الله، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم صلاته قال: ”من القائل: السلام على الله؟ إن الله هو السلام، ولكن قولوا: التحيات لله والصلوات والطيبات، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله“ قال: وقد كانوا يتعلمونها كما يتعلم احدكم السورة من القرآن.حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحِلٌّ قَالَ: سَمِعْتُ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ أَبَا وَائِلٍ يَذْكُرُ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كَانُوا يُصَلُّونَ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْقَائِلُ: السَّلاَمُ عَلَى اللهِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَتَهُ قَالَ: ”مَنِ الْقَائِلُ: السَّلاَمُ عَلَى اللهِ؟ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلاَمُ، وَلَكِنْ قُولُوا: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ“ قَالَ: وَقَدْ كَانُوا يَتَعَلَّمُونَهَا كَمَا يَتَعَلَّمُ أَحَدُكُمُ السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ایک شخص نے کہا: السلام على اللہ ”اللہ پر سلام ہو۔“ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کی تو فرمایا: کس نے کہا ہے کہ اللہ پر سلام ہو؟ اللہ ہی تو سلام ہے، بلکہ تم کہا کرو: ”التحيات لله ...... سب قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اے نبی آپ پر سلام، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“ پھر فرمایا: صحابہ اس کو اس طرح سیکھتے تھے جیسے کوئی تم میں سے قرآن کی کوئی سورت سیکھتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: سنن ابن ماجه، الصلاة، ح: 899»
حدثنا إسماعيل، قال: حدثنا مالك، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”حق المسلم على المسلم ست“، قيل: وما هي؟ قال: ”إذا لقيته فسلم عليه، وإذا دعاك فاجبه، وإذا استنصحك فانصح له، وإذا عطس فحمد الله فشمته، وإذا مرض فعده، وإذا مات فاصحبه.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ الْعَلاَءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ“، قِيلَ: وَمَا هِيَ؟ قَالَ: ”إِذَا لَقِيتُهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَشَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ، وَإِذَا مَاتَ فَاصْحَبْهُ.“
سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں۔“ عرض کیا گیا: وہ کون کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اسے ملو تو سلام کہو، اور جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو، اور جب تم سے نصیحت طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرو، جب اسے چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو اسے (یرحمك الله کے ساتھ) جواب دو۔ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرو، اور جب وہ فوت ہو جائے تو (قبرستان تک) اس کے ساتھ جاؤ، یعنی جنازہ پڑھو۔“
حدثنا سعيد بن الربيع، قال: حدثنا علي بن المبارك، عن يحيى، قال: حدثنا زيد بن سلام، عن جده ابي سلام، عن ابي راشد الحبراني، عن عبد الرحمن بن شبل قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ”ليسلم الراكب على الراجل، وليسلم الراجل على القاعد، وليسلم الاقل على الاكثر، فمن اجاب السلام فهو له، ومن لم يجب فلا شيء له.“حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ سَلاَّمٍ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي سَلاَّمٍ، عَنْ أَبِي رَاشِدٍ الْحُبْرَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”لِيُسَلِّمِ الرَّاكِبُ عَلَى الرَّاجِلِ، وَلْيُسَلِّمِ الرَّاجِلُ عَلَى الْقَاعِدِ، وَلْيُسَلِّمِ الأَقَلُّ عَلَى الأَكْثَرِ، فَمَنْ أَجَابَ السَّلاَمَ فَهُوَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْ فَلا شَيْءَ لَهُ.“
سیدنا عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”سوار کو چاہیے کہ پیدل کو سلام کہے، اور چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کہے، تعداد میں تھوڑے زیادہ کو سلام کہیں، چنانچہ جس نے سلام کا جواب دیا تو اس کے لیے اس کا اجر ہے اور جس نے جواب نہ دیا اس کے لیے کچھ نہیں۔“
حدثنا إسحاق، قال: اخبرنا روح بن عبادة قال: اخبرني ابن جريج قال: اخبرني زياد، ان ثابتا اخبره، وهو مولى عبد الرحمن، يرويه عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”يسلم الراكب على الماشي، والماشي على القاعد، والقليل على الكثير.“حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي زِيَادٌ، أَنَّ ثَابِتًا أَخْبَرَهُ، وَهُوَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يَرْوِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار کو چاہیے کہ پیدل کو سلام کہے، اور چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کہے، اور تھوڑے زیادہ کو سلام کہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الاستئذان، ح: 6232»