Narrated Alqama: I asked `Aisha "Did Allah s Apostle, use to choose some special days (for fasting)?" She replied, "No, but he used to be regular (constant) (in his service of worshipping). Who amongst you can endure what Allah's Apostle used to endure?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 208
● صحيح البخاري | 6465 | عائشة بنت عبد الله | أدومها وإن قل اكلفوا من الأعمال ما تطيقون |
● صحيح البخاري | 6462 | عائشة بنت عبد الله | أحب العمل إلى رسول الله الذي يدوم عليه صاحبه |
● صحيح البخاري | 43 | عائشة بنت عبد الله | عليكم بما تطيقون الله لا يمل الله حتى تملوا أحب الدين إليه مادام عليه صاحبه |
● صحيح البخاري | 5861 | عائشة بنت عبد الله | خذوا من الأعمال ما تطيقون الله لا يمل حتى تملوا أحب الأعمال إلى الله ما دام وإن قل |
● صحيح البخاري | 6466 | عائشة بنت عبد الله | كان عمله ديمة أيكم يستطيع ما كان النبي يستطيع |
● صحيح البخاري | 1987 | عائشة بنت عبد الله | كان عمله ديمة |
● صحيح البخاري | 1151 | عائشة بنت عبد الله | عليكم ما تطيقون من الأعمال الله لا يمل حتى تملوا |
● صحيح البخاري | 20 | عائشة بنت عبد الله | إذا أمرهم أمرهم من الأعمال بما يطيقون أتقاكم وأعلمكم بالله أنا |
● صحيح البخاري | 1970 | عائشة بنت عبد الله | خذوا من العمل ما تطيقون الله لا يمل حتى تملوا إذا صلى صلاة داوم عليها |
● صحيح مسلم | 1827 | عائشة بنت عبد الله | الله لا يمل حتى تملوا أحب الأعمال إلى الله ما دووم عليه وإن قل |
● صحيح مسلم | 1830 | عائشة بنت عبد الله | أحب الأعمال إلى الله أدومها وإن قل |
● صحيح مسلم | 1828 | عائشة بنت عبد الله | أدومه وإن قل |
● صحيح مسلم | 1833 | عائشة بنت عبد الله | خذوا من العمل ما تطيقون الله لا يسأم الله حتى تسأموا |
● صحيح مسلم | 1834 | عائشة بنت عبد الله | عليكم من العمل ما تطيقون الله لا يمل الله حتى تملوا أحب الدين إليه ما داوم عليه صاحبه |
● صحيح مسلم | 1744 | عائشة بنت عبد الله | إذا عمل عملا أثبته إذا نام من الليل أو مرض صلى من النهار ثنتي عشرة ركعة ما رأيت رسول الله قام ليلة حتى الصباح ما صام شهرا متتابعا إلا رمضان |
● صحيح مسلم | 1829 | عائشة بنت عبد الله | كان عمله ديمة أيكم يستطيع ما كان رسول الله يستطيع |
● سنن أبي داود | 1370 | عائشة بنت عبد الله | كان كل عمله ديمة |
● سنن أبي داود | 1368 | عائشة بنت عبد الله | الله لا يمل حتى تملوا أحب العمل إلى الله أدومه وإن قل إذا عمل عملا أثبته |
● سنن النسائى الصغرى | 763 | عائشة بنت عبد الله | الله لا يمل حتى تملوا أحب الأعمال إلى الله أدومه وإن قل كان إذا عمل عملا أثبته |
● سنن النسائى الصغرى | 5038 | عائشة بنت عبد الله | عليكم من العمل ما تطيقون الله لا يمل الله حتى تملوا أحب الدين إليه ما دام عليه صاحبه |
● سنن النسائى الصغرى | 1722 | عائشة بنت عبد الله | إذا صلى صلاة أحب أن يداوم عليها |
● سنن النسائى الصغرى | 1643 | عائشة بنت عبد الله | عليكم بما تطيقون الله لا يمل الله حتى تملوا أحب الدين إليه ما داوم عليه صاحبه |
● سنن النسائى الصغرى | 1719 | عائشة بنت عبد الله | إذا صلى صلاة أحب أن يداوم عليها |
● سنن ابن ماجه | 4238 | عائشة بنت عبد الله | عليكم بما تطيقون الله لا يمل الله حتى تملوا أحب الدين إليه الذي يدوم عليه صاحبه |
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 43
باب اور حدیث میں مناسبت:
➊حدیث میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں «الدين» کے اور دین سے مراد یہاں عمل کے ہیں کیوں کہ اعتقاد کو ترک کرنا کفر ہے اور دین اور ایمان ایک ہی چیز ہے تو ایمان بھی عمل ہوا اور عمل ہی مقصود ہے اس باب میں۔ [ديكهيے فتح الباري ج1 ص 136]
➋ دوسری مناسبت یہ ہے کہ بندہ مشقت سے جو عمل کرتا ہے اس پر دوام نہیں رکھ سکتا اور وہ جلد ہی اس عمل کو چھوڑ دیتا ہے اور جو مکمل نشاط اور توجہ سے عمل کرتا ہے تو اس پر وہ دوام اختیار کرتا ہے لہٰذا جو کام دل کی گہرائی اور دوام کے ساتھ ہو وہ یقیناً جنت کے حصول کا سبب بنتا ہے اور یقیناً جنت میں دین پر عمل کرنا ہی لے جاتا ہے یہاں سے بھی باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 96
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 20
´ایمان کا تعلق دل سے ہے`
«. . . كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ، أَمَرَهُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ، قَالُوا: إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی (اس پر) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں (آپ تو معصوم ہیں) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 20]
تشریح:
اس باب کے تحت بھی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہر جگہ یکساں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اور ساری مخلوقات سے بڑھ کر تھی۔ یہاں حضرت امام بخاری مرجیہ کے ساتھ کرامیہ کے قول کا بطلان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان صرف قول کا نام ہے اور یہ حدیث ایمان کی کمی و زیادتی کے لیے بھی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «انااعلمكم بالله» سے ظاہر ہے کہ علم باللہ کے درجات ہیں اور اس بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کم زیادہ ہو سکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ چڑھ کر حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض صحابی آپ سے بڑھ کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اس خیال کی تغلیط میں فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔ تم کتنی ہی عبادت کرو مگر مجھ سے نہیں بڑھ سکتے ہو اس لیے کہ معرفت خداوندی تم سب سے زیادہ مجھ ہی کو حاصل ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی ہی اللہ کو پسند ہے۔ ایسی عبادت جو طاقت سے زیادہ ہو، اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور معرفت کا تعلق دل سے ہے۔ اس لیے ایمان محض زبانی اقرار کو نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے لیے معرفت قلب بھی ضروری ہے اور ایمان کی کمی و بیشی بھی ثابت ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 20
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1987
1987. حضرت علقمہ سے روایت ہے انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ عبادت کے لیے کچھ دنوں کی تخصیص فرماتے تھے؟انھوں نے فرمایا: نہیں، آپ کی عبادت دائمی ہوا کرتی تھی۔ اور تم میں سے کون ہے جو رسول اللہ ﷺ کے برابر طاقت رکھتا ہو؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1987]
حدیث حاشیہ:
جن ایام کے روزوں کے متعلق احادیث وارد ہوئی ہیں جیسے یوم عرفہ، یوم عاشورہ وغیرہ وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1987
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 763
´نمازی اور امام کے درمیان پردہ حائل ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چٹائی تھی جسے آپ دن میں بچھایا کرتے تھے، اور رات میں اس کو حجرہ نما بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے، لوگوں کو اس کا علم ہوا تو آپ کے ساتھ وہ بھی نماز پڑھنے لگے، آپ کے اور ان کے درمیان وہی چٹائی حائل ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اتنا ہی) عمل کرو جتنا کہ تم میں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکے گا البتہ تم (عمل سے) تھک جاؤ گے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو گرچہ وہ کم ہو“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جگہ چھوڑ دی، اور وہاں دوبارہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، آپ جب کوئی کام کرتے تو اسے جاری رکھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 763]
763 ۔ اردو حاشیہ:
➊ چٹائی کو کھڑا کر کے حجرہ سا بنانا لوگوں کی مداخلت روکنے اور خلوت مہیا کرنے کے لیے تھا کیونکہ خلوت خشوع و خضوع میں معاون ہے۔
➋ کوئی نیک کام شروع کر کے چھوڑ دینا زیادہ برا ہے بجائے اس کے کہ شروع ہی نہ کیا جائے کیونکہ چھوڑنے میں اعراض ہے، البتہ اگر کبھی کبھار نیند، سستی یا مصروفیت کی بنا پر وہ رہ جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اس کا ثواب لکھا جاتا ہے، بشرطیکہ مستقل نہ چھوڑے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 763
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4238
´نیک کام کو ہمیشہ کرنے کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت (بیٹھی ہوئی) تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اور پوچھا: ”یہ کون ہے“؟ میں نے کہا: یہ فلاں عورت ہے، یہ سوتی نہیں ہے (نماز پڑھتی رہتی ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرو! تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے کی تمہیں طاقت ہو، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ہے یہاں تک کہ تم خود ہی اکتا جاؤ۔“ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس کو آدمی ہمیشہ پابندی سے کرتا ہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4238]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طاقت سے زیادہ عبادت کرنا منع ہے۔
کیونکہ ا س کے بعد میں اکتاہٹ ہوجاتی ہے۔
اور خطرہ ہوتا ہے کہ انسان عبادت بالکل ہی ترک کردے۔
(2)
ہمیشگی والے عمل کا مجموعی ثواب زیادہ ہوجاتا ہے۔
اس لئےوہ افضل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4238
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1370
´نماز میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم ہے۔`
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا حال کیسا تھا؟ کیا آپ عمل کے لیے کچھ دن خاص کر لیتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل مداومت و پابندی کے ساتھ ہوتا تھا اور تم میں کون اتنی طاقت رکھتا ہے جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے؟۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1370]
1370. اردو حاشیہ: فائدہ: ہمیشگی اسی عمل پر ہوسکتی ہے جو افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال پر مبنی ہو، اور مداومت اختیار کرنا ہی سب سے بڑی ریاضت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1370
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1987
1987. حضرت علقمہ سے روایت ہے انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ عبادت کے لیے کچھ دنوں کی تخصیص فرماتے تھے؟انھوں نے فرمایا: نہیں، آپ کی عبادت دائمی ہوا کرتی تھی۔ اور تم میں سے کون ہے جو رسول اللہ ﷺ کے برابر طاقت رکھتا ہو؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1987]
حدیث حاشیہ:
(1)
جمعے کا دن روزے کے لیے خاص کرنا ممنوع ہے جیسا کہ گزشتہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔
اس کے علاوہ ہفتے کے دن روزہ رکھنے کی بھی ممانعت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ہفتے کے دن روزہ نہ رکھو، سوائے فرض روزے کے۔
اگر تم میں سے کوئی انگور کا چھلکا یا کسی درخت کا تنکا پائے تو چاہیے کہ اسی کو کھا لے۔
" (سنن أبي داود، الصوم، حدیث: 2421)
ممانعت صرف اس صورت میں ہے کہ جب صرف اکیلا ہفتے کا روزہ رکھا جائے لیکن جب اس کے ساتھ ایک اور روزہ ملا لیا جائے تو جائز ہے۔
(2)
پیر اور جمعرات کا روزہ رکھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔
(مسندأحمد: 80/6)
ایک روایت میں ہے:
رسول اللہ ﷺ سے پیر اور جمعرات کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
”ان دنوں اللہ کے حضور بندوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔
“ (سنن أبي داود، الصیام، حدیث: 2436)
ایک روایت میں ہے:
آپ نے فرمایا:
”میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل پیش کیا جائے تو میں روزے کی حالت میں ہوں، اس لیے میں پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتا ہوں۔
“ (مسندأحمد: 201/5)
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پیر کے دن کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
”یہ ایسا دن ہے کہ جس میں، میں پیدا ہوا ہوں اور جس دن مجھے نبوت ملی ہے۔
“ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 293/4) (3)
امام بخاری ؒ نے استفہامیہ انداز میں باب قائم کر کے اس مسئلے میں اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے، تاہم امام بخاری نے جو حدیث پیش کی ہے اس سے ان کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی دن کو عبادت کے لیے خاص نہیں کیا جا سکتا۔
راجح بات یہ ہے کہ جمعرات اور پیر کے دن کو روزے کے لیے خاص کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسا کرنا رسول اکرم ﷺ سے ثابت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1987