276. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت میمونہ ؓ نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا اور ایک کپڑے سے پردہ بھی کر دیا۔ پہلے آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انہیں دھویا۔ پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر خوب رگڑا اور اسے دھویا۔ اس کے بعد کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرہ اور بازو دھوئے، پھر اپنے سر پر پانی بہایا اور سارے جسم کو دھویا۔ اس کے بعد ایک طرف ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ بعدازاں میں نے آپ کو ایک کپڑا دینا چاہا لیکن آپ نے اسے نہیں لیا اور آپ اپنے دونوں ہاتھوں سے پانی جھاڑتے ہوئے چلے گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:276]
حدیث حاشیہ: 1۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ غسل کرنے کے بعد جو پانی بدن پررہ گیا وہ پاک ہے، اگرچہ وہ اس پانی کا بقیہ ہے جس سے جنابت کو دور کیا گیا تھا۔
اگر اس میں کوئی مضائقہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے ہاتھوں سے نہ جھاڑتے، کیونکہ ایسا کرنے سے چھینٹے اڑتے ہیں اوران کے کپڑوں پر پڑنے کا بھی اندیشہ بدستور ہے، اس لیے مناسب یہ تھا کہ احتیاط کے ساتھ تولیے وغیرہ سے پانی کو خشک کرلیا جاتا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔
معلوم ہواکہ پانی پاک ہے اوراس کے کپڑوں پر لگ جانے میں کوئی نقصان نہیں۔
2۔
بعض شراح نے لکھا ہے کہ اس عنوان سے امام بخاری ؒ ایک ضعیف حدیث کی تردید کرنا چاہتے ہیں
”وضو میں اپنے ہاتھوں کو مت جھاڑو کیونکہ یہ تو شیطان کے پنکھے ہیں
“ اس حدیث کے متعلق امام ابن الصلاح ؒ نے لکھا ہے کہ مجھے اس کا سراغ نہیں مل سکا۔
امام نووی ؒ نے بھی ایسا ہی کہا ہے کہ جبکہ اس حدیث کو امام ابن حبان ؒ نے اپنی تالیف الضعفاء میں اورابن ابی حاتم ؒ نے کتاب العلل میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔
یہ حدیث دواعتبار سے ناقابل حجت ہے۔
۔
بخاری کی صحیح حدیث اس کے معارض ہے۔
یہ سند کے لحاظ سے بھی قابل التفات نہیں۔
(فتح الباري: 471/1) 3۔
علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے یہ عنوان قائم کرکے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ہاتھوں سے پانی کا جھاڑنا جائز ہے۔
اس سے عبادت کے اثرات زائل نہیں ہوتے۔
رسول اللہ ﷺ نے جوتولیہ واپس کیا اس کا ہرگز مقصد یہ نہ تھا کہ غسل کے اثرات باقی رہیں، بلکہ آپ نے کپڑا اس لیے استعمال نہیں فرمایا کہ یہ عیش پرست اور فضول خرچ لوگوں کی عادت ہے جس سے تکبر کی بھی بو آتی ہے۔
(عمدة القاري: 55/3) اگرغسل کے اثر کو باقی رکھنا مقصود ہوتا تو ہاتھوں سے پانی جھٹکنا بھی درست نہ ہوتا۔
4۔
حافظ ا بن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ غسل کے بعد بدن خشک کرنے کے لیے تولیے کا استعمال مکروہ ہے۔
یہ استدالال صحیح نہیں، کیونکہ یہ تو ایک وقتی حالات کا تقاضا تھا جس میں دوسری باتوں کا بھی احتمال ہے، مثلاً ممکن ہے کہ وہ کپڑا ناپاک ہو یا اور کوئی عذر اس کے لینے میں رکاوٹ بنا ہو، یا آپ جلدی میں ہوں، چنانچہ مہلب نے لکھا ہے:
احتمال ہے کہ آپ نے تولیے کا استعمال اس لیے نہ فرمایا ہو کہ پانی کی برکت جسم پر باقی رہے یا تواضع اور انکساری کے پیش نظر اسے ترک فرمایا ہو یا اور کوئی بات اس کپڑے میں دیکھی ہو کہ وہ ریشم کا ہو یا میلا ہو۔
امام احمد اور محدث اسماعیلی کی یہ روایت بھی منقول ہے کہ حضرت نخعی ؒ سے امام اعمش نے تولیے وغیرہ سے بدن صاف کرنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا:
اس میں کوئی حرج نہیں اوررسول اللہ ﷺ نے اس لیے واپس کیا تھا کہ آپ اس کے عادی نہیں ہونا چاہتے تھے۔
حضرت تیمی نے اپنی شرح میں لکھا ہے:
اس حدیث میں دلیل ہے کہ آپ اسے استعمال کرتے تھے۔
اگرآپ کا عمل معروف نہ ہوتا تو حضرت میمونہ ؓ اسے کیوں پیش فرماتیں!ہاتھ سے پانی صا ف کرنا ہی اس کی دلیل ہے کہ تولیہ وغیرہ بھی استعمال ہوسکتا ہے، کیونکہ دونوں طریقوں سے پانی کا صاف کرنا مقصود ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعضائے وضو سے گرنے والا پانی پاک ہے جبکہ بعض غالی احناف اسے نجس کہتے ہیں۔
(فتح الباري: 472/1)