الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4910
4910. حضرت محمد بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا، میں ایک ایسی مجلس میں حاضر تھا جہاں حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی تھے۔ ان کے شاگرد ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ انہوں نے حاملہ کی عدت وفات أبعد الأجلین (طویل تر) بیان کی تو میں نے وہاں سبیعہ بنت حارث ؓ کی حدیث عبداللہ بن عتبہ کے حوالے سے بیان کر دی۔ ان کے شاگردوں میں سے کسی نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ میں بات سمجھ گیا اور کہا کہ عبداللہ بن عتبہ ابھی کوفہ میں بقید حیات ہیں۔ اگر میں ان کی طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کرتا ہوں تو بڑی جرءت کی بات ہو گی۔ اس پر مجھے تنبیہ کرنے والے صاحب شرمندہ ہو گئے۔ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہنے لگے: لیکن ان کے چچا (عبداللہ بن مسعود) نے تو یہ بات نہیں کہی۔ پھر میں ابو عطیہ مالک بن عامر سے ملا اور ان سے میں نے یہی مسئلہ پوچھا تو وہ بھی سبیعہ اسلمیہ والی حدیث بیان کرنے لگے۔ میں نے ان سے کہا: آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4910]
حدیث حاشیہ:
1۔
لمبی مدت سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حمل سے ہوتو اگر چارماہ دس دن کے اندر اندر بچہ پیدا نہ ہو تو سے وضع حمل تک انتظار کرنا ہوگا اور اس سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے تو اسے چار ماہ دس دن پورے کرنے ہوں گے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ أبعد الأجلین کے قائل تھے۔
وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق کہتے تھے کہ میرے موقف کے حامی ہیں لیکن ان کا یہ خیال صحیح نہیں تھا جیسا کہ ابوعطیہ مالک بن عامر نے اس کی صراحت کی ہے۔
2۔
بہرحال جس حاملہ عورت کا شوہر فوت ہو جائے، اس کی عدت وضع حمل ہے۔
اس کے بعد اسے عقدثانی کرنے کی اجازت ہے۔
جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔
وضع حمل، خواہ دیر سے ہو یا جلدی، اسے بچہ پیدا ہونے تک انتظار کرنا ہوگا۔
اس مسئلے کی مزید تفصیل کتاب الطلاق میں پیش کی جائے گی۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4910