24. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} :
24. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ قیامت میں) ارشاد ”اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے، یا دیکھ رہے ہوں گے“۔
(24) Chapter. The Statement of Allah: “Some faces that Day shall be Nadirah (shining and radiant). Looking at their Lord.” (V.75:22,23)
● صحيح البخاري | 554 | جرير بن عبد الله | سترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب |
● صحيح البخاري | 7436 | جرير بن عبد الله | سترون ربكم يوم القيامة كما ترون هذا لا تضامون في رؤيته |
● صحيح البخاري | 7434 | جرير بن عبد الله | سترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وصلاة قبل غروب الشمس فافعلوا |
● صحيح البخاري | 7435 | جرير بن عبد الله | سترون ربكم عيانا |
● صحيح البخاري | 573 | جرير بن عبد الله | سترون ربكم كما ترون هذا لا تضامون أو لا تضاهون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قال سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها |
● صحيح البخاري | 4851 | جرير بن عبد الله | سترون ربكم كما ترون هذا لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب |
● صحيح مسلم | 1434 | جرير بن عبد الله | سترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها يعني العصر والفجر ثم قرأ جرير وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها |
● جامع الترمذي | 2551 | جرير بن عبد الله | ستعرضون على ربكم فترونه كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وصلاة قبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب |
● سنن أبي داود | 4729 | جرير بن عبد الله | سترون ربكم كما ترون هذا لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ هذه الآية فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها |
● سنن ابن ماجه | 177 | جرير بن عبد الله | سترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب |
● المعجم الصغير للطبراني | 96 | جرير بن عبد الله | لا إيمان لمن لا أمانة له ، ولا صلاة لمن لا طهور له ، ولا دين لمن لا صلاة له ، إنما موضع الصلاة من الدين كموضع الرأس من الجسد |
● مسندالحميدي | 817 | جرير بن عبد الله | هل ترون هذا القمر؟ فإنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر، لا تضامون في رؤيته، فمن استطاع منكم أن لا يغلب على صلاة قبل طلوع الشمس، ولا قبل غروبها فليفعل |
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 573
´نماز فجر کی فضیلت`
«. . . حَدَّثَنَا قَيْسٌ، قَالَ لِي جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، فَقَالَ: " أَمَا إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا، لَا تُضَامُّونَ أَوْ لَا تُضَاهُونَ فِي رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تُغْلَبُوا عَلَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا، ثُمَّ قَالَ: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا سورة طه آية 130 " . . . .»
”. . . جریر بن عبداللہ نے بیان کیا، کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو (اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی مزاحمت نہ ہو گی) یا یہ فرمایا کہ تمہیں اس کے دیدار میں مطلق شبہ نہ ہو گا اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے (فجر اور عصر) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو۔ (کیونکہ ان ہی کے طفیل دیدار الٰہی نصیب ہو گا یا ان ہی وقتوں میں یہ رویت ملے گی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی «فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها» ” پس اپنے رب کے حمد کی تسبیح پڑھ سورج کے نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔ “ امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ابن شہاب نے اسماعیل کے واسطہ سے جو قیس سے بواسطہ جریر (راوی ہیں) یہ زیادتی نقل کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم اپنے رب کو صاف دیکھو گے “۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الْفَجْرِ:: 573]
� تشریح:
جامع صغیر میں امام سیوطی فرماتے ہیں کہ عصر اور فجر کی تخصیص اس لیے کی گئی کہ دیدارِ الٰہی ان ہی وقتوں کے اندازے پر حاصل ہو گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 573
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7434
7434. سیدنا جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف نظر اٹھائی اور فرمایا: ”تم لوگ اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی دھکم پیل یا مشقت نہیں ہوگی۔ اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے نمازوں میں سستی نہ کرو تو ایسا کرلو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7434]
حدیث حاشیہ:
یہ تشبیہ رؤیت کی ہے ساتھ کےجیسے چاند کی رؤیت ہر شخص کوبے وقت اور بلاتکلیف کے میسر ہوتی ہے اسی طرح آخرت میں پروردگار کا دیدار بھی ہر مومن کو بے دقت اور بلاتکلیف حاصل ہوگا۔
اب قسطلانی نےجو صعلوکی سے سے نقل کیا کہ اس کی رؤیت بلا جہت ہوگی تما م جہات میں کیونکہ وہ جہت سے پاک ہے۔
یہ عجیب کلام ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور منشا ان خیالات کا وہی تقلید ہے فلاسفہ اور پچھلے متکلمین کی۔
اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول نےکہاں فرمایا کہ وہ تعالیٰ شانہ جہت یا جسمیت سے پاک اورمنزہ ہے۔
یہ دل کی تراشی ہوئی باتیں ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7434
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7436
7436. سیدنا جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نےکہا: رسول اللہ ﷺ چودھویں کی رات ہمارے ہاں تشریف لائے اور فرمایا: ”تم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو اس طرح دیکھو گے جیسے تم چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت ورکاوٹ نہ ہوگی اور نہ کوئی مشقت ہی اٹھانا پڑے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7436]
حدیث حاشیہ:
قیامت کے دن دیدار باری تعالیٰ حق ہے جو ہرمومن مسلمان کو بلاوقت ہوگا جیسے چودھویں رات کا چاند سب کو صاف نظر آنا ہے۔
اللھم ارزقنا آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7436
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4729
´رویت باری تعالیٰ کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں شب کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا: ”تم لوگ عنقریب اپنے رب کو دیکھو گے، جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو، تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی زحمت نہ ہو گی، لہٰذا اگر تم قدرت رکھتے ہو کہ تم فجر اور عصر کی نماز میں مغلوب نہ ہو تو ایسا کرو“ پھر آپ نے یہ آیت «فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها» ”اور اپنے رب کی تسبیح کرو، سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے“ (سورۃ طہٰ: ۱۳۰) پڑھی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4729]
فوائد ومسائل:
1: قیامت میں اور جنت میں رب ذوالجلال کا دیدار عین حق ہے اور یہ شرف اہل ایمان کو انتہائی آسانی کے ساتھ اور بغیر کسی دھکم پیل کے حاصل ہو گا۔
مگر وہی ایمان دار اس سے بہرہ ور ہوں گے جو نمازوں کی پابندی کرنے والے ہوں گے۔
2: جو شخص طلوع آفتاب سے پہلے فجر اور غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی پابندی کر لے وہ نمازوں سے بھی غافل نہیں روہ سکتا۔
3: رسول ؐ کا چاند کی طرف دیکھ کر یہ مسئلہ بیان کرنا نظر کو نظرسے تشبیہ دینے کے لئے تھا۔
ورنہ عزوجل کے مثل کوئی شے نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4729
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث177
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے چودہویں کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا: ”عنقریب تم لوگ اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو کہ اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو رہی ہے، لہٰذا اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز سے پیچھے نہ رہو تو ایسا کرو۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: «وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب» ”اپنے رب کی تسبیح و تحمید بیان کیجئے سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے“ (سور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 177]
اردو حاشہ:
(1)
فرقہ جہمیہ، جہم بن صفوان کی طرف منسوب ہے، اس بدعتی فرقے کا اہل سنت سے کئی مسائل میں اختلاف ہے، مثلا:
یہ لوگ بندے کو مجبور محض قرار دیتے ہیں، اسی لیے انہیں جبریہ بھی کہتے ہیں اور اللہ کی صفات کا انکار کرتے ہیں۔
وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ صفات الہی تسلیم کرنے سے اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے مشابہ ماننا پڑتا ہے جو اللہ کی شان کے لائق نہیں، حالانکہ اہل سنت اللہ کی صفات کو مخلوقات کی صفات کے مشابہ قرار نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیں کہ جس طرح اس کی ذات بندوں کی ذات سے مشابہ نہیں، اسی طرح اس کی صفات کو تسلیم کرنے سے اس کی بندوں سے تشبیہ لازم نہیں آتی بلکہ بندوں کی صفات بندوں کی حالت سے مناسبت رکھتی ہیں اور اللہ کی صفات ویسی ہیں جیسی اس کی شان کے لائق ہیں اور یہ تشبیہ نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (شوریٰ: 11)
یعنی اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے والا دیکھنے والا ہے۔
(2)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا دیدار ممکن ہے، قیامت کو اور جنت میں مومنوں کو اللہ کا دیدار ہو گا۔
دنیا میں اس لیے ممکن نہیں کہ موجودہ جسم اور موجودہ قوتوں کے ساتھ بندہ اللہ کے دیدار کی تاب نہیں لا سکتا بلکہ اس دنیا کی کوئی قوت اس کی زیارت کی متحمل نہیں ہو سکتی اسی لیے جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا اور موسی علیہ السلام بے ہوش ہو گئے (دیکھیے: سورۃ الاعراف: 143)
لیکن عالم آخرت میں اللہ تعالیٰ بندوں کو طاقت عطا فرمائے گا کہ وہ اللہ کی تجلی کو برداشت کر سکیں۔
(3)
اس حدیث کا مقصد اللہ تعالیٰ کو چاند سے محض تشبیہ دینا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں لاکھوں افراد بیک وقت چاند کو دیکھ سکتے ہیں اور انہیں اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی، اسی طرح جنت میں بے شمار مومن بیک وقت دیدار الہی کا شرف حاصل کر سکیں گے اور انہیں اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
(4)
نماز باقاعدی سے ادا کرنا، بالخصوص نماز فجر اور عصر قضا نہ ہونے دینا ایک بہت بڑا نیک عمل ہے، جس کا بدلہ زیارت باری تعالیٰ ہے۔
(5)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی تین نمازوں کی کوئی اہمیت نہیں، بلکہ جو شخص فجر اور عصر باقاعدگی سے ادا کرتا ہے، وہ دوسری نمازیں بدرجہ اولیٰ باقاعدگی سے ادا کرتا ہے کیونکہ فجر کی نماز کے وقت نیند اور سستی کا غلبہ ہوتا ہے اور عصر کے وقت کاروبار وغیرہ کے روزمرہ کاموں میں انتہائی مصروفیت ہوتی ہے، اس لیے انہیں بروقت اور باجماعت ادا کرنا دوسری نمازوں کی نسبت مشکل ہے۔
جو شخص یہ مشکل کام کر لیتا ہے، وہ دوسری نمازیں بھی آسانی سے ادا کر سکتا ہے اور اس طرح جنت میں داخل ہونے اور اللہ کی زیارت سے مشرف ہونے کی امید رکھ سکتا ہے۔
(6)
چاند کے ساتھ تشبیہ دینے میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے علو (اوپر ہونے)
کا بھی اثبات ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 177
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2551
´جنت میں رب تبارک و تعالیٰ کے دیدار کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ بجلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”تم لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں کوئی مزاحمت اور دھکم پیل نہیں ہو گی۔ اگر تم سے ہو سکے کہ سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے کے بعد کی نماز (فجر اور مغرب) میں مغلوب نہ ہو تو ایسا کرو، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: «سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب» ”سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے اپنے رب کی تسبی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة/حدیث: 2551]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے اپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کرو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2551
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:817
817- سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ مہینے کی چودھویں رات میں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو؟ بے شک تم اپنے پروردگار کا اسی طرح دیدار کرو گے، جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہوکہ تمہیں اسے دیکھنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آرہی، تو تم میں سے جس شخص کے لیے یہ ممکن ہو وہ سورج نکلنے سے پہلے والی اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز کے حوالے سے مغلوب نہ ہوجائے (یعنی انہیں قضانہ کرے)“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:817]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ روز قیامت جنتی اللہ تعالیٰ کا دیدار کر یں گے۔ نیز نماز فجر اور نماز عصر کی تاکید کا بیان ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 817
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1434
حضرت جریرہ بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک آپ ﷺ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا: ہاں تم یقیناً اپنے رب کو دیکھو گے، جس طرح اس چاند (ماہ کامل) کو دیکھ رہے ہو، اس کے دیکھنے میں تمہارا اژدھام (بھیڑ) نہیں ہو گا یا کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی پس اگر تم یہ کر سکو کہ سورج نکلنے سے پہلے اور سورج کے غروب ہونے سے پہلے کی نماز کے سلسلہ میں مغلوب نہ ہو (نہ ہارو) یعنی عصر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1434]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
لَاتَضَامُّونَ:
اگر اس لفظ کو ضم سے ماخوذ مانیں تو یہ باب تفاعل سے ہو گا اور ت پر ختم ہو گا اور معنی ہو گا جمع ہونا،
اژدحام کرنا اور اگر اس کو ضیم سے (ظلم وزیادتی)
سے ماخوذ مانیں تو یہ ثلاثی مجرد سے مضارع مجہول ہو گا مقصد یہ ہے کہ جس طرح چاند ماہ کامل ہو اس کے دیکھنے میں اژدحام یا دھکم پیل نہیں ہوتا،
یا ظلم وزیادتی کر کے کسی کو دیکھنے سے محروم نہیں کیا جا سکتا،
اس طرح ہر انسان اپنی اپنی جگہ اللہ تعالی کے دیدار سے مشرف ہو گا۔
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث میں دیدار الٰہی کی استعداد اور لیاقت پیدا کرنے یا دیدار سے تمتع ہونے کے لیے صرف دو نمازوں کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے ایک طرف تو ان نمازوں کی فضیلت واہمیت ثابت ہوتی ہے تو دوسری طرف یہ پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں نمازوں پر ہمیشگی اور دوام باقی نمازیں ادا کرنے کا باعث اور سبب ہے جو ان کی پابندی کرے گا یقیناً وہ باقی نمازوں کو بھی پڑھے گا۔
(2)
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کو ماہ کامل کی رؤیت (دیکھنا)
سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح ہم اپنے سر کی آنکھوں سے اپنی اپنی جگہ بغیر کسی اژدحام اور مشقت کے ماہ کامل کو دیکھ لیتے ہیں اسی طرح مسلمان اپنے سر کی آنکھوں سے اپنی اپنی جگہ بغیر کسی کلفت ودقت کے اللہ کے دیدار سے لذت و فرحت حاصل کریں گے اس طرح حدیث میں تشبیہ کا تعلق صرف دیکھنے سے ہے۔
ماہ کامل کو اللہ تعالیٰ سے تشبیہ نہیں دی گئی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1434
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:554
554. حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے ایک رات ماہ کامل کی طرف دیکھ کر فرمایا: ”بےشک تم اپنے پروردگار کو (روزِ قیامت) اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت نہیں ہو گی، لہٰذا اگر تم پابندی کر سکتے ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے (فجر کی) اور غروب آفتاب سے پہلے (عصر کی) نمازوں سے مغلوب نہ ہو جاؤ، یعنی پابندی سے انہیں ادا کر سکو تو ضرور کرو۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، یعنی نماز پڑھو۔“(حدیث کے راوی) اسماعیل بن ابی خالد نے کہا: افعلوا کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ نمازیں تم سے فوت نہ ہو جائیں، انہیں ضرور پڑھا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:554]
حدیث حاشیہ:
(1)
دوسری نمازوں کے مقابلے میں نماز عصر کی کچھ خصوصیات ہیں، مثلا:
نماز عصر اس امت کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی فرض تھی۔
(مسند أحمد: 397/6)
نیز قرآن کریم میں اسے(الصلاة الوسطٰى)
قرار دے کر اس کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔
پھر اس کے فوت ہونے یا اس کے ترک کرنے پر احادیث میں سخت وعید آئی ہے۔
امام بخاری ؒ اب ایک دوسرے پہلو سے اس نماز کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں، پہلے ترہیب تھی، اب اس کی فضیلت بیان کر کے ترغیب کے پہلو کو نمایاں کیا جا رہا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کا مقصود نماز عصر کے متعلق فجر کے علاوہ دیگر نمازوں پر فضیلت ثابت کرنا ہے۔
(فتح الباري: 45/2)
اگرچہ اس روایت سے فجر اور عصر دونوں کی فضیلت یکساں معلوم ہوتی ہے، کیونکہ رؤیت باری تعالیٰ کی نعمت کے حصول میں دونوں نمازیں مؤثر ہیں، تاہم اس مقام پر نماز عصر کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں نمازوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے سورۂ قٓ کی آیت تلاوت کرنے کے بجائے سورۂ طٰهٰ کی آیت: 130 تلاوت فرمائی ہے۔
(صحیح البخاري، حدیث: 573)
جبکہ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ راوئ حدیث حضرت جریر ؓ نے بطور تائید ان آیات کو تلاوت کیا تھا۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1434(633)
اس سے پتا چلتا ہے کہ روایت کے آخر میں ادراج (راوی کی طرف سے بطور توضیح اضافہ)
واقع ہوا ہے۔
والله أعلم. (3)
روایات میں وضاحت ہے کہ طلوع و غروب سے پہلے نماز سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث 1434(633)
نماز فجر اور عصر کے متعلق خصوصی تاکید کی وجہ جہاں ان نمازوں کی دیگر خصوصیات ہیں وہاں یہ بھی ہے کہ ان میں فجر کی نماز اس وقت ادا کی جاتی ہے جب انسان کو نیند بہت پیاری ہوتی ہے اور نماز عصر کے وقت انسان اپنے کاروبار اور کام کاج میں مصروف ہوتا ہے، چنانچہ ان اسباب کے باوجود اگر کوئی ان نمازوں پر خصوصی توجہ دیتا ہے تو دیگر نمازوں کی بالاولیٰ حفاظت کرے گا۔
(4)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ان دونوں نمازوں کی حفاظت سے آخرت میں رؤیت باری تعالیٰ کی سعادت نصیب ہو گی۔
آخرت میں اہل ایمان کے لیے رؤیت باری تعالیٰ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے اثبات میں بے شمار آیات، متعدداحادیث اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع موجود ہے، لیکن معتزلہ، خوارج اور مرجیہ اس کے منکر ہیں۔
منکرین کے دلائل اور ان کے جوابات کتاب التوحید، حدیث: 7434 میں بیان ہوں گے۔
بإذن الله.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 554
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:573
573. حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم لوگ نبی ﷺ کے پاس تھے کہ آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: ”تم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تمہیں کوئی دشواری یا اشتباہ نہیں ہو گا، لہٰذا اگر تم پابندی کر سکتے ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے نمازوں سے مغلوب نہ ہو جاؤ، یعنی پابندی سے انہیں ادا کر سکو تو ضرور کرو۔“ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، یعنی نماز پڑھو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:573]
حدیث حاشیہ:
یہ روایت (554)
پہلے گزرچکی ہے۔
وہاں الفاظ کا اختلاف نہیں تھا۔
اس روایت میں ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے لَا تُضَامُونَ کے الفاظ ذکر فرمائے۔
لاتضامون اگر "ضم" سے مشتق ہے تواس کے معنی ہوں گے:
تم ایک دوسرے پر ازدحام (بھیڑ)
نہیں کرو گے۔
اور اگر اس کا اشتتاق''ضيم'' سے ہے تو معنی یہ ہیں کہ تم ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرو گے۔
اور اگر''تضاهون'' ہے تو اس کے معنی اشتباہ کے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ ہر شخص بغیر ازدحام، بغیر پریشانی اور بغیر کسی قسم کے اشتباہ کے اپنی جگہ پر رہتے ہوئے رؤیت باری تعالیٰ سے شرف یاب ہوگا۔
پھر آپ نے فرمایا کہ اس شرف کو حاصل کرنے کے لیے اگر ہوسکے تو طلوع وغروب سے پہلے کی نمازوں کی پابندی کرو۔
اس سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے۔
جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1434(633)
اس سے نماز فجر کی فضیلت معلوم ہوگئی کہ یہ اتنی اہم نماز ہے جس کی پابندی رؤیت باری تعالیٰ جیسی عظیم نعمت کے حصول میں مؤثر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 573
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4851
4851. حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ایک رات نبی ﷺ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا تو فرمایا: ”یقینا تم اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اسے دیکھنے میں تمہیں دھکم پیل نہیں کرنی پڑے گی، اس لیے اگر تمہارے لیے ممکن ہو تو طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے نماز نہ چھوڑو۔“ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”آفتاب نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4851]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ اگر ممکن ہوتو یہ نمازیں تم سے فوت نہیں ہونی چاہئیں۔
(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 554)
ایک حدیث میں نماز فجراور نماز عصر کی صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1434(633)
2۔
اس حدیث میں نماز عصر اور نماز فجر کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ قیامت کے دن ان نمازوں کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے دیدار کا باعث ہوگی۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے نماز پڑھے گا وہ دوزخ کی آگ میں داخل نہیں ہوگا۔
“ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1436(634)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4851
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7436
7436. سیدنا جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نےکہا: رسول اللہ ﷺ چودھویں کی رات ہمارے ہاں تشریف لائے اور فرمایا: ”تم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو اس طرح دیکھو گے جیسے تم چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت ورکاوٹ نہ ہوگی اور نہ کوئی مشقت ہی اٹھانا پڑے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7436]
حدیث حاشیہ: 1۔
مذکورہ بالا تینوں احادیث حضرت جرید بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مختلف طرق سے مروی ایک ہی حدیث ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود بیان فرمایا:
تم قیامت کے دن اپنے رب سے محودیدار ہوگے جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی احادیث سے پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختلف واقعات ہیں۔
کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ازخود بتایا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سوال کرنے پر اس سے ہمیں مطلع فرمایا کہ اہل ایمان کو قیامت کے دن دیدار الٰہی نصیب ہوگا۔
چنانچہ ایک حدیث میں صراحت ہے:
”تم میں سے کوئی بھی موت سے پہلے اپنے ر ب عزوجل کو نہیں دیکھ سکے گا۔
“ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7356(2931)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ آیت کریمہ میں اپنے رب کریم کو کھلی آنکھ سے دیکھنے کا بیان ہے۔
2۔
اگرچہ لغوی اعتبار سے لفظ نظر چار معنوں میں استعمال ہوتا ہے:
۔
غوروفکر کرنا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ)
”کیا وہ اونٹ کی طرح نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کیاگیا۔
“ (الغاشیة: 17/88)
۔
انتظارکرنا جیسا کہ قران مجید میں ہے:
(مَا يَنْظُرُونَ إِلا صَيْحَةً وَاحِدَةً)
”وہ صرف ایک زور دار چیخ کا انتظار کررہے ہیں۔
“ (یٰس: 49)
رحم وکرم کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا ہے:
(وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)
”قیامت کے دن اللہ ان کی طرف نہیں دیکھے گا، یعنی ان پر رحم وکرم نہیں کرے گا۔
“ (آل عمران 77)
۔
کھلی آنکھ سے دیکھنا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ)
”وہ آپ کی طرف اس شخص کی طرح دیکھیں گے جس پر موت کی غشی ڈالی گئی ہو۔
“ (محمد 20/47)
3۔
واضح رہے کہ مذکورہ احادیث میں تشبیہ یا عتبار روئیت کے ہے، یعنی چاند کے دیکھنے کو اللہ تعالیٰ کی روئیت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔
یہ تشبیہ باعتبار مرئی کے نہیں ہے، یعنی چاند کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تشبیہ نہیں دی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مشابہ کوئی چیز نہیں۔
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ روئیت باری کے متعلق احادیث حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔
(فتح الباري: 536/13)
ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم یقیناً اپنے رب کو دیکھو گے اس روئیت میں کوئی شک وشبہ یا تعجب و مشقت نہ ہوگی۔
اور نہ اسے دیکھنے میں کوئی رکاوٹ ہی سامنے ہوگی بلکہ ہر اہل ایمان کھلی آنکھ سے اپنے رب کو اس طرح دیکھے گا جس طرح چودھویں رات کا چاند دیکھا جاتاہے۔
اگرچہ روئیت کے لیے ایک دوسرے کے سامنے ہونا اور آنکھ سے شعاعوں کا نکلنا جومرئی (دیکھی جانے والی چیز)
پر پھیل جائیں اور دیکھنے والے کی آنکھ میں مرئی (دیکھی جانے والی چیز)
کی صورت کا منقش ہونا ضروری ہے تاہم یہ تمام شرائط عام اشیاء کے لیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان سے بالاتر ہے اور اس کے لیے ایسی شرائط کا ثابت کرنا محال ہے۔
شارحین صحیح بخاری نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مذکورہ روئیت جہت کے بغیر ہوگی کیونکہ وہ جہت سے پاک ہے۔
اس کلام کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہت علو ثابت ہے۔
دراصل یہ فلاسفہ اور متکلمین کے خیالات ہیں جنھیں ہمارے بعض شارحین نے اختیار کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات نہیں ہیں۔
ہم ایسی باتوں کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ خود ساختہ اور من گھڑت ہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7436