تخریج: «أخرجه أبوداود، الأطعمة، باب في الفأرة تقع في السمن، حديث:3842، وأحمد:2 /232، 265، 490. * الزهري مدلس وعنعن، و معمر خالفه الثقات فيه.»
تشریح:
1.مذکورہ حدیث میں متاثرہ گھی کو باہر پھینکنے اور اس کے قریب نہ پھٹکنے کا حکم اس بات کی دلیل ہے کہ نجس چکنائی
(گھی‘ تیل) سے انتفاع مطلقاً جائز نہیں۔
لیکن پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ انتفاع کا باب‘ بیع کے باب سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
تمام دلائل میں تطبیق یوں ہے کہ یہ ممانعت صرف انسان کے کھانے اور بطور تیل استعمال کرنے پر محمول ہے۔
جب اس کا کھانا اور بطور تیل استعمال کرنا درست نہیں تو اسے فروخت کر کے اس کی قیمت کھانا بالاولیٰ حرام ہے۔
2. جامد اور مائع کا فرق اس لیے ہے کہ جامد میں تمیز ہو سکتی ہے کہ چوہا کتنے حصے کو لگا ہے۔
جبکہ مائع میں اس کا امکان نہیں کہ کس اور کتنے حصے سے چوہے کا بدن لگا ہے۔
3. امام بخاری اور ابوحاتم رحمہما اللہ نے اس پر وہم کا حکم لگایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث میمونہ کی مسند ہے‘ مسندابی ہریرہ نہیں ہے‘ لہٰذا اس پر وہم کا حکم سند کے اعتبار سے ہے متن کے اعتبار سے نہیں۔
4. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین اس کی بابت لکھتے ہیں
«مَتْنُ الْحَدِیثِ صَحِیحٌ» ”مذکورہ حدیث کا متن صحیح ہے
“ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد وغیرہ کی بناپر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۱۲ /۱۰۱. ۱۰۳)