زہیر نے کہا: ہم سے سفیان بن عینہ نے ابو لبید سے، انھوں نے ابو سلمہ سے اورانھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”تمھاری نماز کے نام پر تمھارے گنوار لوگ غالب نہ آجائیں، خبردار!یہ عشاء ہے، وہ اونٹنیوں کا دودھ دوہنے کی وجہ سے اندھیرا کر دیتے ہیں (اور اندھیرے (عتمہ) کی بنا پر اس وقت پڑھی جانے والی نماز کو صلاۃ العتمہ، یعنی اندھیرے کی نماز کہتےہیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تمہاری نماز کے نام پر تم پر گنوار غالب نہ آ جائیں، خبردار اس کا نام عشاء ہے، وہ اونٹوں کا دودھ دوہنے کی خاطر اندھیرا کر دیتے ہیں (اور اندھیرے کی بنا پر عشاء کو عتمہ کہتے ہیں)“
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 543
´عشاء کو عتمہ کہنے کی کراہت۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا: ”تمہارے اس نماز کے نام کے سلسلہ میں اعراب تم پر غالب نہ آ جائیں، جان لو اس کا نام عشاء ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 543]
543 ۔ اردو حاشیہ: ➊پچھلے باب والی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عتمہ فرمایا ہے اور ان دو روایات میں اس سے روکا گیا ہے، لہٰذا یا تو پہلی روایت نہی سے پہلے کی ہو گی یا عتمہ کہنا جائز تو ہو گا مگر مناسب نہیں، یعنی مکروہ تنزیہی ہو گا کیونکہ قرآن مجید میں اس نماز کا نام صراحتاً عشاء ہے۔ اگر نام بدل گیا تو عشاء کی نماز کے احکام مجہول ہو جائیں گے۔ ➋اعراب(بدوی لوگ) صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے تھے کہ عشاء کو عتمہ کہتے تھے بلکہ وہ مغرب کی نماز کو عشاء کہتے تھے۔ یہ تو قطعاً درست نہیں کیونکہ پھر عشاء کی نماز کے احکام مغرب پر جالگیں گے اور بہت پیچیدگی پیدا ہو جائے گی۔ عشاء کو عتمہ کہنا تو وصف کی بنا پر ہے، اس لیے اس میں کچھ نرمی ہے مگر مغرب کو عشاء کہنا قطعاً درست نہیں ہے۔ ➌اعراب سے مراد وہ لوگ ہیں جو صحرا میں الگ تھلگ رہتے تھے۔ شہروں اور بستیوں سے دور اور ان کی تہذیب سے نفور۔ انہیں بدوی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ فصاحت و بلاغت اور خالص عربی زبان کے ماہر تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 543
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4984
´نماز عشاء کو عتمہ کہنا کیسا ہے؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر «أعراب»(دیہاتی لوگ) تمہاری نماز کے نام کے سلسلے میں ہرگز غالب نہ آ جائیں، سنو! اس کا نام عشاء ہے ۱؎ اور وہ لوگ تو اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کے لیے تاخیر اور اندھیرا کرتے ہیں ۲؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4984]
فوائد ومسائل: ہمارے ہاں دیہاتوں میں بعض لوگ عشاء کی نماز کو سوتےکی نماز ظہر کو پیشی یا پییش (پہلی) اور عصر کو دیگر (دوسری) کہتے ہیں۔ لیکن اس فرمان کا مطلب یہ ہےکہ ایمانیات سے متعلق شرعی اصطلاحات غالب اور زبان زد عام ہونی چاہییں عرف سے مغلوب نہ ہونے پائیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4984
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث704
´عشاء کو عتمہ کی نماز کہنے کی ممانعت۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اعراب (دیہاتی لوگ) تمہاری نماز کے نام میں تم پر غالب نہ آ جائیں، اس لیے کہ (کتاب اللہ میں) اس کا نام عشاء ہے، اور یہ لوگ اس وقت اونٹنیوں کے دوہنے کی وجہ سے اسے «عتمہ» کہتے ہیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 704]
اردو حاشہ: (1) قرآن مجید میں عشاء کی نماز کا ذکر اس کے نام کے ساتھ آیا ہے جہاں یہ حکم ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد بچے اور غلام بھی اجازت لیکر گھر اور کمرے میں آئیں۔ (سورہ النور: 57) اعرابیوں نے مغرب کی نماز کو عشاء اور عشاء کی نماز کو عتمہ کہنا شروع کردیا تھا۔ اس سے خطرہ ہوا کہ لوگ اس حکم کو عشاء کے بجائے، مغرب کی نماز کے متعلق نہ سمجھ لیں، اس لیے شرعی اصطلاح کو اس طرح تبدیل کردینا کہ غلط فہمی کا اندیشہ ہو درست نہیں۔
(2) عتمہ اندھیرے کو کہتے ہیں چونکہ وہ لوگ شام کو کافی تاخیر سے یعنی اندھیرا ہونے پر اونٹنیوں کا دودھ دوہتے تھے اسی وجہ سے انھوں نے نماز عشاء کو عتمہ کہنا شروع کردیا۔ بعض احادیث میں نماز عشاء کو عتمہ کے نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے، اس لیے اس نہی کو تنزیہی قرار دینا چاہیے یعنی عشاء کو عتمہ کہنے سے بچنا بہتر ہے، واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 704
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:652
652- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ”دیہاتی لوگ تمہاری نماز کے نام کے حوالے سے تم پر غالب نہ آجائیں یہ عشاء ہے، وہ لوگ اسے عتمہ کہتے ہیں، کیونکہ وہ اس وقت اونٹوں کے حوالے سے کام کاج کرکے فارغ ہوتے ہیں۔“(یہاں ایک لفظ میں راوی کو شک ہے) سفیان کہتے ہیں: ابن ابولبید نے اسی طرح شک کے ہمراہ روایت نقل کی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:652]
فائدہ: اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ نمازوں کے نام بھی بذریعہ وحی رکھے گئے ہیں، ان کو اصل ناموں کے ساتھ ہی پکارنا چاہیے، عالمی لوگ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ وہ دین اسلام کی اصطلاحات کو اپنے ماحول کے مطابق تبدیل کردیں، مثلاً ا آج کل نماز عشاء کو”سوتے“ کی نماز کہتے ہیں، اور ظہر کی نماز کو ”پیشی“ کی نماز اور عصر کی نماز کو ”ڈیگر“ کی نماز کہنا درست نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بعض لوگوں نے نماز عشاء کو اصل نام سے تبدیل کر کے ”عتمہ“ کہنا شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع کر دیا، آج بھی ضرورت ہے کہ عامی لوگوں کو ان کی بری عادات پر ڈانٹنا چاہیے، اور انھیں قرآن و حدیث پر ہی پابند کرنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 652
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1456
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمہاری عشاء کی نماز کے نام کے سلسلہ میں تم پر بدو غالب نہ آ جائیں، کیونکہ اللہ کی کتاب میں اس کا نام عشاء ہو اور بدو اونٹوں کا دودھ دوہنے میں اندھیرا کر لیتے ہیں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1456]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: حَلَاب: مصدر ہے اور معنی تھن سے دودھ نکالنا۔ فوائد ومسائل: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کو عام طور پر عتمہ کہنے سے روکا ہے کہ اس کا غالب نام عتمہ ہو جائے کبھی کبھار عتمہ کہنے سے منع نہیں فرمایا، اس لیے بعض مواقع پر آپ نے خودعشاء کو عتمہ کے نام سے تعبیر فرمایا ہے اور عتمہ نام رکھنے کا آپﷺ نے سبب بھی بتا دیا ہے کہ گنوار چونکہ اونٹ دوہنے میں دیر کر دیتے ہیں اور اس کام میں اندھیرا پھیل جاتا ہے اس لیے وہ اس کو عتمہ کے نام سے پکارتے ہیں تم بھی ان کے ساتھ عتمہ کہنا نہ شروع کر دینا کہ عشاء کا نام متروک یا مغلوب ہو جائے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ﴾(النور: 58)