فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4054
´غلام مشرکین کے علاقہ میں بھاگ جائے اس کا بیان اور جریر رضی الله عنہ کی حدیث کی روایت میں شعبی پر اختلاف کا ذکر۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب غلام بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہیں ہو گی یہاں تک کہ وہ اپنے مالک کے پاس لوٹ آئے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4054]
اردو حاشہ:
(1) ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ اگر کوئی غلام بھاگ کر مشرکوں اور کافروں کے علاقے میں چلا جائے اور انہی سے مل جائے تو وہ محارب کے حکم میں ہو گا، چنانچہ اس کا حکم یہ ہے کہ جب وہ گرفت میں آ جائے تو اسے قتل کر دیا جائے جس طرح کہ حضرت جریر نے کیا تھا۔ باب مذکور کی دوسری حدیث میں اس واقعے کی صراحت موجود ہے۔
(2) نماز قبول نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اسے نماز کا ثواب نہیں ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل نہ ہو گی اگرچہ ویسے نماز کفایت کر جائے گی، یعنی اس کے ذمے سے نماز کا فریضہ ساقط ہو جائے گا اور اسے اس کی قضا نہیں دینی پڑے گی۔ کہا جاتا ہے: [القبول أخص من الأجزاء ] ”کسی عمل کی قبولیت اس کے محض کفایت کرنے سے خاص ہے۔“ چونکہ کسی بھی نیک صالح عمل کی قبولیت اجر و ثواب، اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا مندی کے حصول کا سبب ہوتی ہے جبکہ اجزا (کفایت) کا مطلب صرف یہ ہے کہ جو ذمہ داری فرض تھی اور جس چیز کا انسان مکلف تھا وہ فرض اس سے ساقط ہو گیا اور بس۔ مزید کوئی اجر و ثواب یا اللہ تعالیٰ کا قرب و رضا اس سے حاصل نہیں ہوتا۔ جو غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر اسے چھوڑ کر کافروں اور مشرکوں کے علاقے میں چلا جائے تو اس طرح وہ اپنے مالک کا نقصان کرتا ہے، چنانچہ سزا کے طور پر اس کی نماز، باوجود ادا کرنے کے، بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔ البتہ اس کے ذمے جو فرض تھا وہ ساقط ہو جائے گا کیونکہ نماز کی ذاتی شرائط اس میں موجود ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ اس صورت میں ہے کہ اس غلام کا مقصد صرف ادھر سے بھاگنا ہو، ان کافروں سے مل جانا مقصد نہ ہو۔ اگر اس غلام کا مقصد محض ادھر سے بھاگ کر ادھر جانا نہیں بلکہ ان کے دین کو ترجیح دینا اور پسند کرنا ہو تو پھر یہ غلام مرتد اور کافر ہو جائے گا۔ اب اگر بالفرض نماز پڑھے بھی سہی تو نہ وہ نماز صحیح ہو گی اور نہ قبول ہی ہو گی۔ و اللہ أعلم۔
(3) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض احکام ایسے ہوتے ہیں جن کے کر لینے سے، ادائیگی کے باوجود، فرائض قبول نہیں ہوتے۔
(4) کفر و شرک پر راضی اور خوش ہونا بھی کفر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4054
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4055
´غلام مشرکین کے علاقہ میں بھاگ جائے اس کا بیان اور جریر رضی الله عنہ کی حدیث کی روایت میں شعبی پر اختلاف کا ذکر۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب غلام بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہیں ہو گی، اور اگر وہ مر گیا تو وہ کفر کی حالت میں مرا۔“ اور جریر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام بھاگ گیا تو آپ نے اسے پکڑا اور اس کی گردن اڑا دی۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4055]
اردو حاشہ:
یہاں ایک خاص صورت کا ذکر ہے کہ جب غلام بھاگ کر کفار کے پاس چلا جائے جیسا کہ باب کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے۔ اس صورت میں وہ یا تو مرتد ہو گا یا کم از کم باغی۔ پہلی صورت میں وہ وجوباً اوردوسری صورت میں جوزاً قتل کیا جائے گا۔ چاہے وہ علانیہ مرتد نہ ہی ہوا ہو۔ آئندہ احادیث کا مقصود یہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4055