● صحيح البخاري | 2113 | عبد الله بن عمر | كل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار |
● صحيح البخاري | 2112 | عبد الله بن عمر | إذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يتفرقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع وإن تفرقا بعد أن يتبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع |
● صحيح البخاري | 2107 | عبد الله بن عمر | المتبايعين بالخيار في بيعهما ما لم يتفرقا أو يكون البيع خيارا |
● صحيح البخاري | 2111 | عبد الله بن عمر | المتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا إلا بيع الخيار |
● صحيح البخاري | 2109 | عبد الله بن عمر | البيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو يقول أحدهما لصاحبه اختر |
● صحيح مسلم | 3853 | عبد الله بن عمر | البيعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا إلا بيع الخيار |
● صحيح مسلم | 3855 | عبد الله بن عمر | إذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يتفرقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فإن خير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع وإن تفرقا بعد أن تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع |
● صحيح مسلم | 3857 | عبد الله بن عمر | كل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار |
● صحيح مسلم | 3856 | عبد الله بن عمر | إذا تبايع المتبايعان بالبيع فكل واحد منهما بالخيار من بيعه ما لم يتفرقا أو يكون بيعهما عن خيار فإذا كان بيعهما عن خيار فقد وجب |
● جامع الترمذي | 1245 | عبد الله بن عمر | البيعان بالخيار ما لم يتفرقا |
● سنن أبي داود | 3454 | عبد الله بن عمر | المتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يفترقا إلا بيع الخيار |
● سنن النسائى الصغرى | 4485 | عبد الله بن عمر | البيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو يكون بيعهما عن خيار |
● سنن النسائى الصغرى | 4471 | عبد الله بن عمر | البيعان بالخيار ما لم يفترقا أو يكون خيارا |
● سنن النسائى الصغرى | 4479 | عبد الله بن عمر | المتبايعان لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار |
● سنن النسائى الصغرى | 4472 | عبد الله بن عمر | المتبايعان بالخيار ما لم يفترقا إلا أن يكون البيع كان عن خيار فإن كان البيع عن خيار فقد وجب البيع |
● سنن النسائى الصغرى | 4473 | عبد الله بن عمر | إذا تبايع البيعان فكل واحد منهما بالخيار من بيعه ما لم يفترقا أو يكون بيعهما عن خيار فإن كان عن خيار فقد وجب البيع |
● سنن النسائى الصغرى | 4474 | عبد الله بن عمر | البيعان بالخيار ما لم يفترقا أو يقول أحدهما للآخر اختر |
● سنن النسائى الصغرى | 4475 | عبد الله بن عمر | البيعان بالخيار حتى يفترقا أو يكون بيع خيار |
● سنن النسائى الصغرى | 4476 | عبد الله بن عمر | البيعان بالخيار حتى يفترقا أو يكون بيع خيار |
● سنن النسائى الصغرى | 4470 | عبد الله بن عمر | المتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يفترقا إلا بيع الخيار |
● سنن النسائى الصغرى | 4478 | عبد الله بن عمر | المتبايعين بالخيار في بيعهما ما لم يفترقا إلا أن يكون البيع خيارا |
● سنن النسائى الصغرى | 4480 | عبد الله بن عمر | كل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار |
● سنن النسائى الصغرى | 4481 | عبد الله بن عمر | كل بيعين فلا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار |
● سنن النسائى الصغرى | 4482 | عبد الله بن عمر | كل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار |
● سنن النسائى الصغرى | 4483 | عبد الله بن عمر | كل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار |
● سنن النسائى الصغرى | 4484 | عبد الله بن عمر | كل بيعين فلا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار |
● سنن النسائى الصغرى | 4477 | عبد الله بن عمر | إذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار حتى يفترقا وقال مرة أخرى ما لم يتفرقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فإن خير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع فإن تفرقا بعد أن تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع |
● سنن ابن ماجه | 2181 | عبد الله بن عمر | إذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يفترقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فإن خير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع وإن تفرقا بعد أن تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 488 | عبد الله بن عمر | المتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا، إلا بيع الخيار |
● بلوغ المرام | 692 | عبد الله بن عمر | إذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يتفرقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فإن خير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع وإن تفرقا بعد أن تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع |
● المعجم الصغير للطبراني | 545 | عبد الله بن عمر | كل بيعين لا بيع بينهما ، حتى يتفرقا إلا بيع الخيار |
● مسندالحميدي | 669 | عبد الله بن عمر | إذا تبايع المتبايعان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يفترقا، أو يكون بيعهما على خيار |
● مسندالحميدي | 670 | عبد الله بن عمر | البائعان بالخيار ما لم يفترقا، أو يكون بيعهما عن خيار، فإذا كان عن خيار فقد وجب |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 488
´بیع خیار کا بیان`
«. . . 241- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”المتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا، إلا بيع الخيار.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو جدا ہو جانے سے پہلے اپنے ساتھی پر حق اختیار رہتا ہے الا یہ کہ (جدا ہو جانے کے بعد بھی) حق اختیار والا سودا ہو . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 488]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2111، ومسلم 1531/43، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ اس حدیث میں جدائی سے مراد جسمانی جدائی یعنی تفرق بالا ابدان ہے۔ نافع رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جب ابن (عمر رضی اللہ عنہ) کو سودا پسند آ جاتا تو بیچنے والے سے (دورجاکر) جدا ہوجاتے تھے۔ [صحيح بخاري 2107، صحيح مسلم 1531، دارالسلام: 3856]
➋ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حدیث کے خلاف اہل مدینہ کا اجماع ہے لیکن ایسے نام نہاد اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے جس سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیر ہ باہر ہیں۔ نیز دیکھئے [التمهيد 9/14]
➌ اس صحیح حدیث کو رد کرتے ہوۓ محمود حسن دیوبندی (اسیر مالٹا) نے کہا:
«و خالف ابوحنيفته فيه الجمهور و كثيراً من الناس من المتقدمين و المتاخرين صنو ارسائل فى ترديد مذهبه فى هذه المسئلة ورجح مولانا شاه ولي الله دهلوي قدس سره فى رسائل مذهب الشافعي من جهته الأحاديث والنصوص و كذلك قال شيخنا مدظله يترجح مذهبه وقال: الحق والانصاف أن الترجيح للشافعي فى هذه المسئلة و نحن مقلدون يجب عليان تقليد امامنا ابي حنيفته والله اعلم» ۔
اور اس (مسئلے) میں ابوحنیفہ نے جمہور اور مقتدمین و متاخرین میں سے بہت سوں کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اس مسئلے میں ان کے مذہب کی تردید میں رسالے لکھے اور مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ نے رسالوں میں احادیث اور دلائل کی وجہ سے (امام) شافعی کے مذہب کو ترجیح دی اور اسی طرح ہمارے شیخ مدظلہ نے کہا: ان کا مذہب راجح ہے، اور کہا: حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلے میں شافعی کو ترجیح حاصل ہے اور ہم مقلد ہیں ہم پر اپنے امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔ واللہ اعلم [تقريرترمذي ص36 مطبوعه ایچ ایم سعید کمپنی کراچی] غور کریں کہ تقلید نے ان لوگوں کو حق و انصاف اور دلائل سے کتنا دور کر دیا ہے۔!
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 241
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2181
´بیچنے اور خریدنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں دونوں کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو آدمی ایک مجلس میں خرید و فروخت کریں، تو دونوں میں سے ہر ایک کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں، یا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو اختیار نہ دیدے، پھر اگر ایک نے دوسرے کو اختیار دے دیا پھر بھی ان دونوں نے بیع پکی کر لی تو بیع واجب ہو گئی، اس طرح بیع ہو جانے کے بعد اگر وہ دونوں مجلس سے جدا ہو گئے تب بھی بیع لازم ہو گئی“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2181]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سودا طے پا جانےکے بعد جب قیمت ادا کرکے چیز وصول کر لی جائے تو بیع مکمل ہو جاتی ہے لیکن ممکن ہے خریدنے والا محسوس کرے کہ یہ سودا اس قیمت پر نہیں ہونا چاہیے تھا، اور وہ چیز واپس کرنا چاہیے یا بیچنے والا محسوس کرے کہ مجھے یہ چیز نہیں بیچنی چاہیے تھی اور وہ واپس لینا چاہیے تو اس صورت ميں سودا ختم کرکے مال اور رقم کا دوبارہ تبادلہ کر لینا چاہیے۔
(2)
بیچے ہوئے مال کو واپس کر لینا بہت ثواب ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجة، حدیث2199)
(3)
بیع واپس کرنے کا اختیار اس وقت تک رہتا ہے جب تک دونوں ایک مجلس میں موجود رہیں۔
(4)
اگر ان کے درمیان کوئی مدت طے پاجائے تو واپس لینے دینے کا حق اس مدت تک ہوگا، مثلاً:
خریدنے والا کہے:
اگر مجھے یہ چیز پسند نہ آئی تو میں تین دن تک واپس کردوں گا۔
یا بیچنے والا کہے:
اگر میں کل شام تک واپس نہ لوں تو بعد میں تم سے واپسی کا کوئی مطالبہ نہیں ہوگا۔
اس صورت میں مجلس سے الگ ہوجانے کے بعد بھی مذکورہ مدت تک اختیار باقى رہے گا۔
(5)
اگر انہوں نے مجلس میں بیع واپس نہ کی اور نہ بعد میں واپس کرنے کے لیے کوئی مدت متعین ہوئی تو مجلس برخاست ہوتے ہی دونوں کا اختیار ختم ہو جائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2181
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 692
´بیع میں اختیار کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب دو آدمی آپس میں سودا کرنے لگیں تو جب تک وہ اکٹھے رہیں اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں، ان میں سے ہر ایک کو اختیار ہے، یا ایک دوسرے کو اختیار دیدے، اگر ایک دوسرے کو اختیار دیدے، پھر اس پر سودا طے ہو جائے تو سودا پختہ ہو گیا اور اگر سودا طے کرنے کے بعد ایک دوسرے سے الگ الگ ہو جائیں اور دونوں میں سے کسی نے بھی بیع کو فسخ نہ کیا ہو تو بیع پختہ ہو جائے گی۔“ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 692»
تخریج: «أخرجه البخاري، البيوع، باب إذا خير أحدهما صاحبه بعد البيع، حديث:2112، ومسلم، البيوع، باب ثبوت خيار المجلس للمتبايعين، حديث:1531.»
تشریح:
1. اس حدیث میں بیوپاری اور سوداگر کو خرید وفروخت کے باقی رکھنے یا توڑنے کا حق دیا گیا ہے۔
2.اختیار یا خیار کے بھی یہی معنی ہیں کہ خریدار اور فروخت کنندہ کو سودا باقی رکھنے یا توڑنے کا حق ہے۔
3.اس کی بہت سی انواع ہیں۔
ان میں سے دو کا بالخصوص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔
ایک خیار مجلس جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔
دوسری خیار شرط۔
وہ یہ کہ دونوں میں سے ایک یا دونوں یہ شرط کر لیں کہ اتنی مدت تک سودے کو باقی رکھنے یا واپس کرنے کا اختیار رہے گا۔
اگر خریدار اسے واپس کرنا چاہے تو فروخت کنندہ کو بغیر لیت ولعل اور حیل وحجت کے واپس لینا ہو گا۔
اس کے علاوہ دو تین صورتیں مزید یہ ہیں: 1.خِیَارِ عَیْب: خریدنے والا کہے کہ اگر اس میں کوئی نقص وعیب ہوا تو میں اسے واپس کرنے کا حق رکھتا ہوں۔
2.خِیَارِ رُؤیَتْ: خریدار کہے کہ سودا تو طے ہوا مگر میں اسے دیکھ کر ہی فیصلہ کروں گا کہ اسے لینا ہے یا نہیں۔
دیکھنے پر اسے یہ سودا منظور نہ ہوا تو بیع منعقد نہ ہوگی۔
3. خِیَارِ تَعَیُّن: خریدار کہے کہ ان میں سے جو چیز یا جو جانور مجھے پسند ہو گا وہ لے لوں گا۔
بہر حال شریعت نے فریقین کے لیے بے شمار آسانیاں اور سہولتیں رکھی ہیں تاکہ کسی طرح جھگڑا اور تنازع نہ ہو۔
خریدنے اور فروخت کرنے میں دونوں کی باہمی رضا مندی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 692
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1245
´بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے ۱؎ یا وہ دونوں اختیار کی شرط کر لیں“ ۲؎۔ نافع کہتے ہیں: جب ابن عمر رضی الله عنہما کوئی چیز خریدتے اور بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہو جاتے تاکہ بیع واجب (پکی) ہو جائے (اور اختیار باقی نہ رہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1245]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی عقد کو فسخ کر نے سے پہلے مجلس عقد سے اگربائع (بیچنے والا) اورمشتری (خریدنے والا) دونوں جسمانی طورپر جدا ہوگئے تو بیع پکی ہوجائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیارحاصل نہیں ہوگا۔
2؎:
اس صورت میں جدا ہونے کے بعد بھی شرط کے مطابق اختیار کا حق رہے گا،
یعنی خیارکی شرط کرلی ہو تو مجلس سے علاحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیارباقی رہے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1245
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3454
´بیچنے اور خریدنے والے کے اختیار کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو بیع قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں ۱؎ مگر جب بیع خیار ہو ۲؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3454]
فوائد ومسائل:
فائدہ: اسے اصطلاحا خیار مجلس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اوراس کا تعلق بیع کی جگہ سے علیحدہ علیحدہ ہوجانے سے ہے نہ کہ بیع کا موضوع بدلنےسے۔
البتہ اگر کم یا زیادہ کسی متعین مدت تک کےلیے اختیار کا فیصلہ کرلیا گیا ہوتو الگ با ت ہے۔
ایسی صورت میں متعینہ مدت ہی معتبر ہوگی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3454
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3855
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر دو آدمی کسی چیز کی خرید و فروخت کرتے ہیں،
اور ان کا معاملہ باہمی طے ہو جاتا ہے تو وہ جب تک جس جگہ بیع ہوئی ہے وہیں موجود ہیں،
تو ان دونوں (فروخت کرنے والا اور خریدنے والا)
کو اس سودا کو فسخ کرنے کا (توڑنے والا ختم کرنے کا)
حق حاصل ہے۔
اس کو خیار مجلس کا نام دیا جاتا ہے،
حدیث کے لفظ كَانَا جَمِيْعًا،
مَالَمْ يَتَفَرَّقَا کی توضیح و تفسیر کرتے ہیں کہ تفرق سے مراد،
تَفرق بِالأَبْدْان ہے،
یعنی دونوں اس جگہ سے الگ الگ نہیں ہوئے۔
اس حدیث کے راوی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا یہی معنی سمجھا ہے اور اس کے دوسرے راوی حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ ہیں،
انہوں نے بھی یہی معنی لیا ہے۔
احناف کا اصول یہ ہے کہ راوی کی رائے اور فہم مقدم ہے،
اسی اصول کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہاں تفرق بِالأَبْدَان مراد ہے کیونکہ حضرت ابن عمر سودہ پختہ کرنے کے لیے مجلس بیع سے الگ ہو جاتے تھے۔
نیز حدیث کے الفاظ او يخيرا احدهما الآخر،
ان میں سے ایک دوسرے کو اختیار دے،
اور إِنْ تَفَرَّقَا بَعْدَ ان تَبَايَعَا وَلَمْ يَترك وَاحِد مِنْهما البيع،
اگر بیع کے بعد وہ دونوں الگ ہو گئے اور ان میں سے کسی نے بھی بیع کو ختم نہیں کیا،
فَقَد وَجَبَ الْبَيْع،
تو بیع لازم ہو گئی سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے،
نیز حدیث میں اختیار،
بیع کے بعد دیا گیا ہے،
اور بیع ایجاب و قبول دونوں کے بعد ہوتی ہے،
اس لیے فریقین کو معاملہ بیع،
فسخ کرنے کا اس وقت تک اختیار رہتا ہے،
جب تک وہ دونوں اسی جگہ موجود رہیں جہاں سودا طے پایا ہے،
لیکن اگر کوئی ایک بھی اس جگہ سے ہٹ جائے اور چلایا جائے یا الگ ہو جائے تو فسخ کا اختیار ختم ہو جائے گا۔
امام شافعی،
امام احمد،
اہل ظاہر اور محدثین کا یہی موقف ہے لیکن امام ابو حنیفہ (احناف)
امام مالک (مالکیہ)
کے نزدیک،
تفرق سے مراد تَفرق بالأقوال ہے،
یعنی جب بائع (فروخت کرنے والا)
نے کہا،
میں یہ چیز اتنے میں فروخت کرتا ہوں،
تو اب مشتری (خریدار)
کو اختیار ہے۔
وہ اس قول کو قبول کرے یا نہ کرے،
حالانکہ جب تک سودا طے نہ ہوا تو بیع ہوئی ہی نہیں ہے،
پھر اختیار کا کیا مطلب ہے؟ مالکیہ کہتے ہیں تفرق بالأبدان والا معنی،
عمل اہل مدینہ کے خلاف ہے،
تو کیا ابن عمر،
ابو برزہ،
امام زہری،
ابن ابی ذئب سب مدنی نہیں ہیں،
احناف نے اس حدیث کی تین تاویلیں کی ہیں:
(1)
اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ جب مجلس میں ایک فریق نے بیع کا معاملہ پیش کیا،
تو جب تک مجلس برقرار رہے،
وہ الگ الگ نہیں ہوتے تو دوسرے فریق کو بیع کے قبول کرنے کا اختیار ہے،
مجلس ختم ہونے کے بعد قبول کرنے کا اختیار ختم ہو جائے،
تو جب تک دوسرے فریق نے سودا قبول ہی نہیں کیا تو یہ بیع کیسے ہو گئی؟ (2)
تفرق بالأبدان سے مراد،
تفرق بالأقوال ہے،
کیونکہ جب سودا طے ہو گیا،
تو الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن اگر الگ الگ نہ ہوں تو کیا تفرق بالأبدان ہو گا؟ (3)
خیار مجلس سے مراد،
اقالہ ہے،
یعنی جب بیع کا معاملہ طے پا گیا اور اس کے بعد کسی فریق نے اپنی مصلحت سے معاملہ فسخ کرنا چاہا تو دوسرا فریق اگرچہ قانون شریعت کے تحت،
مجبور نہیں ہے کہ وہ اس کے لیے رضا مند ہو جائے،
لیکن اس کو اخلاقی طور پر اس پر راضی ہو جانا چاہیے،
ظاہر ہے یہاں پر ایک فریق کو اختیار نہیں ہے،
کیونکہ وہ دوسرے فریق کی رضا مندی کا پابند ہے،
اس لیے علامہ تقی عثمانی احناف کے تمام دلائل لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ احناف نے اس حدیث کے سلسلہ میں جتنے عذر پیش کیے ہیں،
حقیقت یہ ہے دل ان پر مطمئن نہیں ہے۔
ففي جميع دلائلهم و تاويلاتهم عندي نظر،
ان کے تمام دلائل اور تاویلات میرے نزدیک محل نظر ہیں،
کیونکہ خود ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے تفرق ابدان اور خیار مجلس مراد لیا ہے۔
(تکملہ فتح الملم:
ج 1 ص 373)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3855