111 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال سمعت الاعمش يقول: سمعت الحجاج بن يوسف يقول: لا تقولوا سورة البقرة ولا سورة كذا فذكرته لإبراهيم بن يزيد النخعي فقال: اخبرني عبد الرحمن بن يزيد، انه مشي مع عبد الله بن مسعود في بطن الوادي فلما اتي الجمرة جعلها عن يمينه ثم اعترضها فرماها، فقلت له: يا ابا عبد الرحمن إن ناسا يرمونها من فوقها، فقال «من هاهنا والذي لا إله غيره رايت الذي انزلت عليه سورة البقرة رماها» 111 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ يَقُولُ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ يَقُولُ: لَا تَقُولُوا سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَلَا سُورَةُ كَذَا فَذَكَرْتُهُ لِإِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ النَّخَعِيِّ فَقَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ مَشَي مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فِي بَطْنِ الْوَادِي فَلَمَّا أَتَي الْجَمْرَةَ جَعَلَهَا عَنْ يَمِينِهِ ثُمَّ اعْتَرَضَهَا فَرَمَاهَا، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ نَاسًا يَرْمُونَهَا مِنْ فَوْقِهَا، فَقَالَ «مِنْ هَاهُنَا وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ رَأَيْتُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ رَمَاهَا»
111- اعمش کہتے ہیں: میں نے حجاج بن یوسف کو یہ کہتے ہوئے سنا: تم لوگ یہ نہ کہو ”سورہ بقرہ“، سورہ فلاں۔اعمش کہتے ہیں: میں نے اس بات کا تذکرہ ابراھیم نخعی سے کیا، تو انہوں نے بتایا: عبدالرحمٰن بن یزید نے مجھے یہ بات بتائی ہے، ایک مرتبہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ وادی کے نشیب میں چل رہتے تھے، جب وہ جمرہ کے پاس آئے، تو سیدنا عبداللہ نے اسے اپنے دائیں طرف رکھا اور پھر ان کے مدمقابل آگئے، پھر انہوں نے اسے کنکریاں ماریں۔ میں نے ان سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! لوگ تو اوپر سے کنکریاں مارتے یں، تو انہوں نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے، وہ ہستی جن پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی میں نے انہیں یہیں سے کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1747، ومسلم: 1296، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4972، 5067، 5185، 5195، وابن حبان فى صحيحه: 3870»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:111
111- اعمش کہتے ہیں: میں نے حجاج بن یوسف کو یہ کہتے ہوئے سنا: تم لوگ یہ نہ کہو ”سورہ بقرہ“، سورہ فلاں۔اعمش کہتے ہیں: میں نے اس بات کا تذکرہ ابراھیم نخعی سے کیا، تو انہوں نے بتایا: عبدالرحمٰن بن یزید نے مجھے یہ بات بتائی ہے، ایک مرتبہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ وادی کے نشیب میں چل رہتے تھے، جب وہ جمرہ کے پاس آئے، تو سیدنا عبداللہ نے اسے اپنے دائیں طرف رکھا اور پھر ان کے مدمقابل آگئے، پھر انہوں نے اسے کنکریاں ماریں۔ میں نے ان سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! لوگ تو اوپر سے کنکریاں مارتے یں، تو انہوں نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے، وہ ہستی جن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:111]
فائدہ: حجاج بن یوسف بعض دفعہ اہل علم سے علمی بحث کرتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ بعض مسائل میں غلطیاں بھی کرتے تھے۔ اس حدیث میں رمی کرنے کے بعض مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ رمی کرتے وقت کنکریاں ایک ایک کر کے مارنی چاہئیں۔ ہر رمی کرتے وقت اللہ کبر پڑھنا چاہیے۔ (بخاری: 175) کنکریاں مارتے وقت کس طرف منہ کر نا چا ہیے سنن ابن ماجہ (3030) میں ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کیا جائے، جبکہ صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیت اللہ کو بائیں طرف اور منٰی کو دائیں طرف رکھتے تھے۔ (حـديـث: 1749) اس میں راجح بات صحيح بخاری والی ہے، اور یاد رہے کہ جہاں بھی کھڑے ہو کر رمی کی جائے، جائز ہے، خواہ اس کی طرف منہ کرے، یا اسے دائیں یا بائیں رکھے، اس کے اوپر کی سمت سے کنکریاں پھینکے یا نیچے کی سمت سے یا درمیان سے۔ (فتح الباری: 734/3) اس حدیث میں صحابی نے سورہ بقرہ کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اس سورہ میں حج کے اکثر مسائل مذکور ہیں۔ وہ یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (جن پر قرآن نازل ہوا ہے) سے بڑھ کر کون ہے، جو دین کے مسائل سمجھتا ہو۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ سورۃ البقرہ، سورۃ الناس وغیرہ کہنا حدیث سے ثابت ہے۔ حجاج بن یوسف کو غلطی لگ گئی تھی، جس طرح ان کو لوگوں کے قتل کرنے میں غلطی لگ گئی تھی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 111