920 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا مسعر، عن ابن القبطية، عن جابر بن سمرة، قال: كنا نصلي مع النبي صلي الله عليه وسلم، فإذا سلم احدنا رمي بيده عن يمينه وعن شماله هكذا: السلام عليكم السلام عليكم، فقال النبي صلي الله عليه وسلم: «ما بالكم ترمون بايديكم كانها اذناب خيل شمس، اولا يكفي احدكم، او إنما يكفي احدكم ان يضع يده علي فخذه، ثم يسلم علي اخيه من عن يمينه ومن عن شماله، السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله» 920 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا مِسْعَرٌ، عَنِ ابْنِ الْقِبْطِيَّةِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنَّا نُصَلَّيْ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا سَلَّمَ أَحَدُنَا رَمَي بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ هَكَذَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَالَكُمْ تَرْمُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ، أَوَلَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ إِنَّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَي فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَي أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَمِنْ عَنْ شِمَالِهِ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ»
920- سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نمازادا کرتے تھے ہم میں سے کوئی ایک شخص جب سلام پھیرتا تھا، تو اپنے ہاتھ کے ذریعے دائیں طرف اور بائیں طرف اس طرح کہتا تھا: السلام علیکم، السلام علیکم۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وجہ ہے کہ تم اپنے ہاتھ یوں ہلاتے ہو، جس طرح یہ سرکش گھوڑوں کی دم ہوتے ہیں۔ کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ آدمی اپنا ہاتھ اپنے زانوں پر رکھے اور پھر اپنے دائیں طرف موجود اپنے بھائی کو سلام کرے اور بائیں طرف موجود اپنے بھائی کو سلام کرتے ہوئے ”السلام علیکم و رحمتہ اللہ، السلام علیکم و رحمتہ اللہ“ کہہ دے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 430، 431، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 733، 1544، 1708، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1878، 1879، 1880، 1881، 2154، 2162، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 815، 1183، 1184، وأبو داود فى «سننه» برقم: 661، 998 1000، 4823، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 992، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3009، 3010، وأحمد فى «مسنده» برقم: 21138، 21155، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7482»
ما بالكم ترمون بأيديكم كأنها أذناب خيل شمس، أولا يكفي أحدكم، أو إنما يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه، ثم يسلم على أخيه من عن يمينه ومن عن شماله، السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:920
920- سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نمازادا کرتے تھے ہم میں سے کوئی ایک شخص جب سلام پھیرتا تھا، تو اپنے ہاتھ کے ذریعے دائیں طرف اور بائیں طرف اس طرح کہتا تھا: السلام علیکم، السلام علیکم۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وجہ ہے کہ تم اپنے ہاتھ یوں ہلاتے ہو، جس طرح یہ سرکش گھوڑوں کی دم ہوتے ہیں۔ کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ آدمی اپنا ہاتھ اپنے زانوں پر رکھے اور پھر اپنے دائیں طرف موجود اپنے بھائی کو سلام کرے اور بائیں طرف موجود اپنے بھائی کو سلام کرتے ہوئے ”السلام علیکم و رحمتہ اللہ، السلام علیکم و رحمتہ الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:920]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کے آخر میں اسلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے وقت ہاتھوں کے ساتھ دائیں اور بائیں طرف اشارے نہیں کرنے چاہئیں، بلکہ ہاتھوں کو رانوں پر ہی رکھتے ہوئے سلام کہنا چاہیے بعض الناس کو بہت بڑی غلطی لگی ہے جو اس حدیث سے عدم رفع الیدین ثابت کرتے ہیں، حالانکہ اس حدیث میں وضاحت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سلام کہتے وقت اپنے ہاتھوں کو دائیں بائیں مارتے تھے لیکن افسوس اندھی تقلید قرآن و حدیث کی دشمن ہے، اور مقلد کی نظر میں اپنے امام کا احترام ہوتا ہے نہ کہ قرآن و حدیث کا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 919