عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر کو زمین کے کام پر اس شرط پہ لگایا کہ کھجور یا غلہ کی جو بھی پیداوار ہو گی اس کا آدھا ہم لیں گے اور آدھا تمہیں دیں گے۔
وضاحت: ۱؎: مساقاۃ یہ ہے کہ باغ کا مالک اپنے باغ کو کسی ایسے شخص کے حوالہ کر دے جو اس کی پوری نگہداشت کرے پھر اس سے حاصل ہونے والے پھل میں دونوں برابر کے شریک ہوں، مساقاۃ مزارعت ہی کی ایک شکل ہے فرق یہ ہے کہ مساقاۃ کا تعلق درختوں سے ہے جب کہ مزارعت کا تعلق کھیتی سے ہے۔
Narrated Ibn Umar: The Messenger of Allah ﷺ made an agreement with the people of Khaibar to work and cultivate in return for half of the fruits or produce.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3401
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2329) صحيح مسلم (1551)
أجلى اليهود والنصارى من أرض الحجاز وكان رسول الله لما ظهر على خيبر أراد إخراج اليهود منها وكانت الأرض حين ظهر عليها لله ولرسوله وللمسلمين وأراد إخراج اليهود منها فسألت اليهود رسول الله ليقرهم بها
أقركم فيها على ذلك ما شئنا كانوا على ذلك وكان التمر يقسم على السهمان من نصف خيبر يأخذ رسول الله الخمس كان رسول الله أطعم كل امرأة من أزواجه من الخمس مائة وسق تمرا وعشرين وسقا شعيرا
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3408
´مساقاۃ یعنی درختوں میں بٹائی کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر کو زمین کے کام پر اس شرط پہ لگایا کہ کھجور یا غلہ کی جو بھی پیداوار ہو گی اس کا آدھا ہم لیں گے اور آدھا تمہیں دیں گے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3408]
فوائد ومسائل: مساقات بھی مزارعت اور مخابرت کی طرح کا معاملہ ہے۔ مگر اسے کھجوروں اور انگوروں وغیرہ کے باغات سے خاص کیا جاتا ہے کہ کھجوروں کا مالک کسی سے طے کرلے کہ وہ ان میں محنت کرے۔ سیراب کرے تو اسے ایک خاص متعین حصہ پھل ملے گا جیسے کہ مزارعت میں ہوتا ہے۔ خیبر میں باغوں کی خدمت کا معاہدہ مساقاہ اور کھیتی کا معاہدہ مزارعت تھا خیبر والی صورت نئی متعارف کردہ جائز صورت تھی سابقہ جاہلی صورت کو اسلام نے حرام قرار دیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3408
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3008
´خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ: آپ ہمیں اس شرط پر یہیں رہنے دیں کہ ہم محنت کریں گے اور جو پیداوار ہو گی اس کا نصف ہم لیں گے اور نصف آپ کو دیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ہم تمہیں اس شرط پر رکھ رہے ہیں کہ جب تک چاہیں گے رکھیں گے،، چنانچہ وہ اسی شرط پر رہے، خیبر کی کھجور کے نصف کے کئی حصے کئے جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے پانچواں حصہ لیتے، اور اپنی ہر بیوی کو سو وسق کھجور اور بیس وسق جو (سال بھر میں) دیتے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3008]
فوائد ومسائل: 1۔ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے زمین اور پانی کا انتخاب کیا۔ اور بعض دیگر ازواج مطہرات نے رضی اللہ عنہما نے حسب سابق متعین حصہ چنا۔ صحیح مسلم کی یہ روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ہے۔ اور زیادہ مفصل اور واضح ہے۔ اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں فے کی زمینوں کی آمدنی میں سے سالانہ خرچ کے طور پر اپنی ہر زوجہ محترمہ کو کل سو وسق اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو مقرر فرمائے تھے۔ (صحیح مسلم، المساواة، حدیث:1551) ابو دائود کی حدیث 3006 میں بھی یہی مقدار مذکور ہے۔ البتہ موجودہ روایت میں کل سو وسق کی بجائے کھجور سو وسق اور اس کے علاوہ جو بیس وسق کی مقدار بیان کی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرنے والے رایوں میں سے کوئی راوی ظن وتخمین سے مقدار بیان کرتے ہوئے التباس کا شکار ہوگیا۔ اور کل سو کی بجائے کھجور سو وسق اور جو بیس وسق کا ذکرکیا گیا۔ (فتح الودود بحوالة عون المعبود باب ما جاء في حکم أرض خیبر) 2۔ خیبر کے طریق کے مطابق بٹائی پر زمین لینا اور دینا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3008
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1383
´مزارعت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کے ساتھ خیبر کی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہو گا اس کے آدھے پر معاملہ کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1383]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے مزارعت (بٹائی پرزمین دینے) کا جواز ثابت ہوتاہے، ائمہ ثلاثہ اوردیگرعلمائے سلف وخلف سوائے امام ابوحنیفہ کے جواز کے قائل ہیں، احناف نے خیبرکے معاملے کی تاویل یہ کی ہے کہ یہ لوگ آپﷺ کے غلام تھے، لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے ”نُقرُكُم مَا أَقَركُمُ الله“ ہم تمہیں اس وقت تک برقراررکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقراررکھے گا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے، نیز احناف کا کہنا ہے کہ یہ معدوم یا مجہول پیداوار کے بدلے اجارہ ہے جو جائز نہیں، اس کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ اس کی مثال مضارب کی ہے کہ مضارب جس طرح نفع کی امید پر محنت کرتا ہے اوروہ نفع مجہول ہے اس کے باوجود وہ جائز ہے، اسی طرح مزارعت میں بھی یہ جائز ہوگا، رہیں وہ روایات جو مزارعت کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں توجمہور نے ان روایات کی تاویل کی ہے کہ یہ روایات نہی تنزیہی پر دلالت کرتی ہیں، یا یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب صاحب زمین کسی مخصوص حصے کی پیداوار خود لینے کی شرط کر لے (واللہ اعلم) حاصل بحث یہ ہے کہ مزارعت کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اوربٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہو نے والے غلّہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلّہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امرکے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اورمزارعت کی وہ شکل جوشرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس انصاری کی روایت میں ہے، وہ کہتے ہیں رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زمین کی بٹائی کا معاملہ اس شرط پر کرتے تھے کہ زمین کے اس مخصوص حصے کی پیداوارمیں لوں گا اورباقی حصے کی تم لینا، تونبی اکرمﷺ نے اس سے منع فرما دیا کیونکہ اس صورت میں کبھی بٹائی پر لینے والے کا نقصان ہوتا کبھی دینے والے کا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1383