´کتے کے پیشاب کے ناپاک ہونے پر اتفاق`
«. . . كَانَتِ الْكِلَابُ تَبُولُ وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ فِي زَمَانِ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ..» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے لیکن لوگ ان جگہوں پر پانی نہیں چھڑکتے تھے۔
“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 174] فقہ الحدیث منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں: کسی طرح یہ امر یقین کرنے کے قابل نہیں ہے کہ مسجد نبوی میں ہمیشہ کتا آ جایا کرتا، نہ تو کتے کے آنے کا انسداد کیا جائے اور نہ اس جگہ پانی چھینٹا جائے کہ پاک ہو جائے .....اور طرہ یہ کہ امام بخاری نے اس حدیث سے یہ اجتہاد فرمایا کہ کتے کا پیشاب پاک ہے!۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دوسری روایت:
«كنت أبيت فى المسجد و كانت الكلاب.....الخ» ۱؎ سے معلوم ہوتا ہے اور یہ ابتدائے دور مدینہ کا واقعہ ہے، جبکہ مسجد کی تکریم و تطہیر کا حکم نہیں ہوا تھا،
جیسا کہ فتح الباری میں ہے:
«إن ذلك كان فى ابتداءالحال،ثم وردالأمر بتكريم المساجد وتطهيرها،وجعل الأبواب عليها» (14/1) ۲؎ ”یہ ابتداءِ وقت کا واقعہ ہے، پھر اس کے بعد مسجد میں دروازہ لگانے اور اس کی عزت اور پاک کرنے کاحکم صادر ہو گیا۔
“ امید ہے کہ اب تو معترضین کو کتوں کے مسجد میں آ جانے اور اس کے عدم انسداد کی وجہ بخوبی معلوم ہو گئی ہو گی۔ ہاں اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کتوں کے پیشاب کے پاک ہونے کی دلیل سمجھنا کم فہمی ہے، بحالیکہ کہ حدیثِ مذکور میں کہیں پیشاب کا ذکر بھی نہیں ہے، اسی لئے تو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں صاف لکھ دیا ہے:
«لا حجة فيه لمن استدل به على طهارة الكلاب، للاتفاق على نجاسة بولها» (139/1) ۳؎ ”یعنی کتے کے پیشاب کے ناپاک ہونے پر اتفاق ہے، اس میں کتے کی طہارت کی دلیل بھی نہیں ہے۔
“ چہ جائیکہ اس کے بول کی طہارت ثابت ہو؟ ہاں اگر آپ فرما دیں کہ دیگر روایات مثلاً ابوداود وغیرہ میں
«”تبول“» کا لفظ بھی آیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کا اعتراض صحیح بخاری کی روایت پر ہے، اور اس میں یہ لفظ ندارد ہے۔
۴؎ چونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ثابت نہیں ہوا، اس لیے نہیں لائے، اور جن روایتوں میں آیا بھی ہے اس کی
«”خارج المسجد“» محذوف مان کر تاویل کی گئی ہے۔
۳؎ یعنی وہ مسجد کے باہر پیشاب کرتے تھے، کیونکہ اگر مسجد میں پیشاب کرتے تو ضرور پانی بہایا جاتا، جب ایک اعرابی نے مسجد نبوی میں پیشاب کر دیا، تو اس پر پانی بہایا گیا، تو کتا جس کا پیشاب باتفاق ناپاک ہے، وہ مسجد میں پیشاب کرتا اور پانی نہ بہایا جاتا، ایں چہ معنی؟
یہ اس امر پر صاف قرینہ ہے کہ وہ مسجد کے باہر بول کرتے تھے اور پھر تو رفتہ رفتہ جب اللہ تعالٰی نے اسلام کو عروج بخشا، ممالک فتح ہوئے، تو مسجد نبوی شاندار بن گئی، دیواریں بھی درست ہو گئیں، منبر بھی تیار ہو گیا، دروازے بھی لگ گئے، غرض سب کچھ ہو گیا اور ہر چیز سے پورا انسداد ہو گیا، جن لوگوں کے دروازے مسجد کی جانب تھے، وہ بھی مسدود ہو گئے، غرض بہر صورت کامل انتظام ہو گیا۔
«فالحمدلله» ------------------
۱؎ [سنن ابي داود:382،قال الشيخ الألباني: صحيح] ۲؎ [فتح الباري:279/1] ۳؎ [فتح الباري:278/1] ۴؎ صحیح بخاری کی منقولہ بالا حدیث یہیں سے شروع ہوتی ہے:
«كانت الكلاب تبول و تقبل .....الخ»