ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرے احکام اور فیصلوں میں سے کوئی حکم آئے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے اور وہ یہ کہے: یہ ہم نہیں جانتے، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو کچھ پایا بس اسی کی پیروی کی ہے ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک زندہ معجزہ ہے، اور حدیث کی صداقت کا زندہ ثبوت ہے آج بعض منکرین حدیث ”اہل قرآن“ کے نام سے وہی کچھ کر رہے ہیں جن کی خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی (دیکھئے حاشیہ حدیث نمبر: ۴۶۰۴)
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/العلم 10 (2661)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 2 (13)، (تحفة الأشراف: 12019)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/8) (صحیح)»
Narrated Abu Rafi: The Prophet ﷺ said: Let me not find one of you reclining on his couch when he hears something regarding me which I have commanded or forbidden and saying: We do not know. What we found in Allah's Book we have followed.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4588
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (162) أخرجه الترمذي (2663 وسنده صحيح) سفيان بن عيينة صرح بالسماع عند الحميدي بتحقيقي (551 وسنده صحيح)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4605
فوائد ومسائل: 1۔ مذکورہ دونوں روایتوں میں اریکہ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے مراد لکڑی کا بنا ہوا تخت یا دیوان ہے جس پر لوگ گھروں میں بیٹھتے تھے یا جائے نماز کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
2۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو قرآن کریم کے ساتھ اسی جیسی دی گئی چیز حدیث اور سنت ہے۔ قرآن کو وحی جلی اور وحی متلو کہا جاتا ہے۔ یعنی جس کی تلاوت ہوتی ہے۔ جبکہ حدیث اور سنت کو وحی خفی اور وحی غیر متلو کہتے ہیں۔ یعنی جس کی تلاوت نہیں ہوتی، لیکن وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ قرآن کریم بسبب تلاوت عامہ وکثیرہ اول دن سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ جبکہ احادیث کے اثبات کے لیے اسانید (خبر دینےوالوں کے سلسلے) کی صحت اولین شرط ہے۔ علمائے راسخین اور ماہرین فن حدیث کی تنقیح وتحقیق کے بعد جن احادیث کی نسبت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف صحیح ثابت ہو ان کا اتباع اسی طرح واجب ہے جیسے کہ قرآن مجید کا اور قرآن مجید کی متعدد آیات اس امر کی تصریح کرتی ہیں اور قول فیصل ہیں۔ جیسے ارشاد الہی: (بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)(النحل:٤٤) ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیاہے تاکہ آپ لوگوں کوان کی طرف نازل کردہ کی خوب وضاحت کردیں۔ اور بلاشبہ آپ صلى الله عليه وسلم کی وضاحت قول وفعل اور توثیق سے ہوئی ہے اور صحابہ کرام نے اس کو خوب محفوظ رکھا اور آگے نقل کیا ہے۔ سورۃالنساء میں ہے: (مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا)(النساء:80) جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے منہ پھیر لیا تو ہم نے آپ کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا ہے۔ سورۃ النور میں ہے: (قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ)(النور;٥٤) کہہ دیجیے اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اگر تم اس سے منہ پھیرلوگے تو رسول پر وہی ہے جو اس پر لازم کیا گیا ہے اور تم سے صرف اس کی جوابدہی ہو گی جو تمھارے ذمے ہے اگر تم اس کی اطاعت کروگے تو ہدایت پر رہوگے اور رسول کے ذمے صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔ علاوہ ازیں فرمایا: (فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ)(النور:٦٣) ان لوگوں کو جو رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ڈرنا چاہیے کہ انہیں کوئی فتنہ نہ آلے یا کوئی دردناک عذاب نہ پہنچ جائے۔ سورۃ الحشر میں فرمایا: (وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا)(الحشر:7) اللہ کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جو کچھ تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے روک جاؤ۔ علاوہ ازیں اور بھی متعدد آیات جحیت حدیث کی واضح دلیل ہیں۔
3۔ ایسے تمام گروہ فرقے یا افراد جو محض قرآن کی اتباع کا دعوی کرتے ہیں، لیکن صحیح احادیث سے اعراض کرتے ہیں، مندرجہ بالا حدیث اور آیات میں ان کے لیے بہت بڑی تنبیہ ہے۔
4۔ یہ احادیث نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی صداقت وحقانیت کی بہت بڑی دلیل ہیں کہ جو بھی غیب کی خبریں آپ نے دی ہیں، وہ بالکل سچ ثابت ہورہی ہیں۔ پاکستان کے صوبے پنجاب میں ظاہر ہونے والا فرقہ اہل قرآن اور ان کا سردار عبد اللہ چکڑالوی بالخصوص اس حدیث کا مصداق ثابت ہوا۔ اس نے اپنے بیٹے مولوی محمد ابراہیم کو اپنے مال سے بغیر کسی قصور کے محروم کردیا۔ وہ آئے اور والد کے سامنے کھڑے ہوکر بات کی اور یہ حدیث سنائی: کوئی اپنے ایک بیتے کو محروم کرے گا، قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے جسم کا ایک مرا ہوا ہوگا۔ حدیث سن کر باپ نے کہا ہم نہیں جانتے ہم اللہ کی کتاب میں جو پائیں گے اسی پر عمل کریں گے۔ مولوی ابراہیم نے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے عبداللہ چکڑالوی لکڑی کے دیوان پر سہارا لے کر بیٹھے ہوئے یہ فقرہ کہہ رہا تھا۔ ان کے سامنے یہ منظر واضح طور پر آگیا جو حدیث میں دکھایا گیا ہے۔ وہ حیرت ودہشت میں ڈوب گئے اور آپ تو وہی ہیں آپ تو وہی ہیں کہتے ہیں، الٹے پاؤں واپس ہو گئے اور باپ کے شہر سے بہت دور ایک گاؤں میں جابسے اور زندگی بھر اپنے حصے کا مطالبہ نہیں کیا کہ ایسے باپ کی دولت سے مجھے کوئی حصہ نہیں چاہیے جو انکار حدیث کے سرغنہ کے طور پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو پہلے ہی دکھا دیا گیا تھا۔
5۔ صحیح احادیث حتمی طور پر واجب العمل ہیں۔ یہ ایک حیلہ ہے کہ احادیث صحیحہ کو پہلے قرآن پر پیش کیا جائےاور پھر عمل کا فیصلہ کیا جائے۔ احادیث قرآن سے ٹکراتی ہی نہیں بلکہ خود قرآن کی رو سے قرآن کی وضاحت اور تفسیر ہیں۔ ان کی روشنی میں قرآن کا مفہوم متعین ہوتا ہے کوئی صحیح قرآن سے ٹکراتی ہی نہیں، بلکہ یہ بھی اللہ کی طرف سے ہیں، سورۃ القیامۃ میں ارشاد الہی ہے: (فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)(القيامه:١٩ ١٨) جب ہم اس کو پڑھ لیں تب آپ اس کی قرات کریں پھر اس کی وضاحت ہمارے ذمے ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4605
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 162
´انکار حدیث کرنے والے` «. . . وَعَن أبي رَافع وَغَيره رَفعه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ أَمر مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيّ فِي دَلَائِل النُّبُوَّة. وَقَالَ التِّرْمِذِيّ حسن صَحِيح . . .» ”. . . سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے تخت اور چھپرکھٹ پر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھا ہوا ہو اور میرے ان حکموں میں سے جن کو میں نے کرنے کا حکم دیا ہے یا جس سے میں نے منع کیا ہے کوئی حکم اس کے پاس پہنچے اور وہ اس کو سن کر یہ کہے کہ میں کچھ نہیں جانتا قرآن مجید میں جو کچھ لکھا ہے ہم اس کی تابعداری کریں گے۔“ اس حدیث کو احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 162]
تحقیق الحدیث یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند بالکل صحیح ہے۔ اسے ابن حبان [الاحسان: 13] نے صحیح، حاکم [1؍108] نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور ذہبی نے حاکم کی موافقت کی ہے۔ یہ حدیث درج بالا کتابوں کے علاوہ درج ذیل کتب حدیث میں بھی موجود ہے: ● مسند الشافعی [1؍17، دوسرا نسخه ص151 ح727] ●کتاب الامام للشافعی [7؍15، وسنده صحيح، 7؍289] ● السنن الکبریٰ للبیہقی [7؍76] ●مسند الحمیدی [551] ◄ اس حدیث کے بنیادی راویوں کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے: ① ابورافع القبطی مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشہور صحابی ہیں، انہوں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے۔ رضی اللہ عنہ ② عبیداللہ بن ابی رافع المدنی رحمہ اللہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے کاتب اور ثقہ تھے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 4288] انہوں نے یہ حدیث اپنے والد سے بیان کی ہے۔ ③ سالم بن ابی امیہ، ابوالنضر مولیٰ عمر بن عبیداللہ التیمی المدنی رحمہ اللہ ثقہ ثبت تھے اور مرسل روایتیں بیان کرتے تھے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 2169]
تنبیہ: مرسل روایتیں بیان کرنا جرح نہیں ہے بلکہ ثقہ راوی کی مرسل روایت مردود اور متصل صحیح روایت مقبول ہوتی ہے۔ سالم نے یہ روایت عبیداللہ بن ابی رافع سے متصل سند کے ساتھ بیان کی ہے، لہٰذا یہ روایت مرسل نہیں ہے۔ ④ سالم ابوالنضر سے یہ حدیث سفیان بن عیینہ المکی رحمہ اللہ نے بیان کی ہے جو مشہور ثقہ مدلس تھے اور انہوں نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔ ⑤ اسے سفیان بن عیینہ سے امام شافعی اور امام حمیدی وغیرہما نے بیان کیا ہے۔
خلاصہ التحقیق: یہ روایت بالکل صحیح ہے۔
فقه الحدیث: ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث حجت ہے۔ ➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض ہے۔ ➌ منکرین حدیث وہ لوگ ہیں جنہیں دربار رسالت سے ناپسندیدہ قرار دے کر دھتکار دیا گیا ہے۔ ➍ یہ حدیث دلائل نبوت میں سے ہے کیونکہ اس میں پیش گوئی ہے کہ امت محمدیہ میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو حدیث کا انکار کریں گے۔ ➎ عصر حاضر کے مشہور ثقہ محدث مولانا محمد رفیق اثری حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: ”الاستاذ العالی رحمہ اللہ (مولانا سلطان محمود صاحب محدث جلالپوری رحمہ اللہ/زع) کا بیان ہے کہ مولانا اسماعیل (بن ابراہیم بن عبداللہ چکڑالوی/) نے بتایا کہ ایک بار وہ اپنے والد مولانا ابراہیم کے ساتھ لاہور گئے جہاں ان کا والد عبداللہ چکڑالوی منکر حدیث اپنے دوست ریشم کے تاجر محمد چٹو کے ہاں مقیم تھا جس کا گھر جامع مسجد اہل حدیث چینیاں والی (رنگ محل لاہور) کے قریب تھا۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ مولوی عبداللہ ایک تخت پر لیٹا ہوا ہے۔ مولانا ابراہیم نے اس سے مطالبہ کیا کہ میری جائداد کا حصہ مجھے دیں اس سے محروم نہ کریں (یاد رہے اس کی مسلکی ہمنوائی نہ کرنے پر عبداللہ چکڑالوی نے انھیں عاق قرار دے کر جائداد سے محروم کر دیا تھا۔ اثری) کیوں کہ حدیث میں ہے: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»[مشكوٰة] عبداللہ چکڑالوی نے جواب دیا کہ میں حدیث کو نہیں مانتا اگر قرآن مجید میں کسی جگہ ہو تو دکھاؤ۔ مولانا ابراہیم نے کہا: کبھی کبھی مجھے شبہ ہوتا تھا کہ شاید وہ (ابراہیم کے والد) حق پر ہوں لیکن آج یقین ہو گیا کہ میں حق پر ہوں اور میرا والد غلط راستے پر چل نکلا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیش گوئی جو آپ نے تیرہ سو سال پہلے فرمائی تھی ہوبہو میرے سامنے سچ ثابت ہو رہی تھی، اور پھر یہ حدیثیں پیش کیں: ◄۔۔۔۔ ابورافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں کوئی ایسا نہ ہو کہ میرا حکم جو میں نے دیا میری نہی اسے پہنچے اور وہ اپنے تخت پر تکیہ لگائے ہوئے (اسے) کہے: میں نہیں جانتا، جو اللہ کی کتاب میں ہے ہم اس کی اتباع کریں گے۔ [رواه أحمد و ابوداود والترمذي وابن ماجه والبيهقي] ◄۔۔۔۔۔۔ مقدام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے قرآن اور اس کی مثل دیا گیا ہے، سنو! قریب ہے کہ ایک آدمی پیٹ بھرا تخت پر بیٹھا ہو گا، کہے گا: اس قرآن ہی کو اپناؤ، جو اس میں حلال ہے اسے حلال جانو اور جو اس میں حرام ہے اسے حرام سمجھو، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کو حرام (و حلال) قرار دیا ہے اسی طرح ہے گویا اللہ نے حرام و حلال قرار دیا ہے۔ [رواه ابوداود والدارمي] ◄ مولانا ابراہیم یہ منظر دیکھ کر اور احادیث سنا کر باپ کے مال سے لاتعلق ہو کر واپس چلے گئے۔“[كتاب: مولانا سلطان محمود محدث جلالپوري تصنيف مولانا محمد رفيق اثري ص67، 68 وسنده صحيح] ◄ معلوم ہوا کہ سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ والی درج بالا حدیث اور سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ کی آنے والی حدیث دونوں حدیثیں عبداللہ چکڑالوی پر فٹ ہوئیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ چکڑالوی کے بارے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [مقدمه دوام حديث جلد اول ص 35، 34]
تنبیہ ① : عبداللہ چکڑالوی کے بیٹے مولانا ابراہیم صاحب اہل حدیث تھے اور ان کے بیٹے مولانا اسماعیل صاحب بھی اہل حدیث تھے۔ رحمہ اللہ علیہما تنبیہ ②: قطع میراث اور فرار من میراث الوارث والی روایت مختلف ضعیف سندوں کے ساتھ سنن سعید بن منصور [ج1 ص96 ح285، 286] وغیرہ میں موجود ہے۔ یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہی ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث13
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔` ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کو ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے ہو، اور اس کے پاس جن چیزوں کا میں نے حکم دیا ہے، یا جن چیزوں سے منع کیا ہے میں سے کوئی بات پہنچے تو وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو چیز پائی اس کی پیروی کی۔“[سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 13]
اردو حاشہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل جس طرح ان حضرات پر فرض تھی جو براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے تھے، اسی طرح ان لوگوں پر بھی فرض ہے جن تک یہ حکم دوسروں کے واسطے سے پہنچتے ہیں۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ واسطہ قابل اعتماد ہو۔ چنانچہ محدثین کے اصولوں کی روشنی میں جو حدیث صحیح یا حسن ثابت ہو جائے اس کی تعمیل ہر مسلمان پر فرض ہے۔
(2) حدیث کو سن کر یہ کہنا کہ ”میں نہیں جانتا“ انکار اور تکبر کا اظہار ہے۔ گویا اس شخص کے نزدیک ارشاد نبوی کی کوئی اہمیت نہیں اور یہ بہت بڑا جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾(النور: 63) ”جو لوگ نبی کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہیے کہیں وہ کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں، یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔“
(3) حدیث کا انکار درحقیقت قرآن کا انکار ہے کیونکہ قرآن میں واضح طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور قرآن مجید کی قولی اور عملی تشریح کو نبی علیہ السلام کا مقصد بعثت قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں حدیث کا انکار سب سے پہلے خوارج نے کیا، جن کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بننے والے جانور سے آر پار ہو جاتا ہے۔“(صحيح مسلم، الزكاة، باب ذكر الخوارج وصفاتهم، حديث: 1063)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 13
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:561
561- عبید اللہ بن ابورافع اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”میں تم سے کسی ایک شخص کو ہرگز ایسی حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا ہو، اس کے پاس ہمارے احکام میں سے کوئی حکم آئے جو حکم ہم نے دیا تھا یا جس چیز سے ہم نے منع کیا تھا، تو وہ یہ کہے: مجھے نہیں معلوم، ہمیں اللہ کی کتاب میں یہ نہیں ملا، ورنہ ہم اس کی پیروی کرلیتے۔“ حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نے یہ بات بیان کی ہے ابن منکدر کی روایات کو میں نے زیادہ اچھے طریقے سے یاد رکھا ہوا ہے، میں نے سب سے پہلے یہ روایت ان سے سنی تھی اور میں نے یہ روایت یاد بھی رکھی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:561]
فائدہ: اس حدیث میں ان لوگوں کی مذمت بیان کی گئی ہے جو قرآن کو کافی سمجھتے ہیں، اور احادیث کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ناممکن ہے۔ جس طرح قرآن مجید وحی الٰہی ہے اسی طرح حدیث بھی وحی الٰہی ہے، نیز اس حدیث میں ایک منکرین حدیث کی کیفیت بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ چارپائی پر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھا ہوگا اور فتنہ انکار حدیث کو فروغ دے گا، اس کے عموم میں تمام منکرین حدیث آتے ہیں۔ برصغیر میں عبداللہ چکڑ الوی نامی منکر حدیث گزرا ہے جس کی ٹانگوں کو فالج تھا، وہ چل نہیں سکتا تھا، اور اپنی چارپائی پر بیٹھا رہتا تھا، اور واضح احادیث کا انکار کرتا تھا، ہندوستان میں ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے کھلم کھلا احادیث کا انکار کیا، اس کا اصل نام قاضی غلام نبی تھا، اسے حدیث سے اس قدر نفرت تھی کہ اس نے اپنا نام غلام نبی سے تبدیل کر کے عبداللہ رکھ لیا تھا، یہ چکڑالہ ضلع میانوالی کا رہنے والا تھا۔ 1282ھ میں علوم دین کی تکمیل کی، جب اس نے سرے سے ہی حدیث کا انکار کرنا شروع کر دیا تو چکڑالہ کے لوگوں نے اس کو خطابت اور افتاء سے الگ کر دیا، اور اس نے جلالپور ضلع ملتان میں جا کر ملازمت کر لی۔ عبداللہ چکڑالوی نے ترجمۃ القرآن بآيات القرآن کے نام سے ایک تفسیر لکھی جس میں اس نے کھل کر احادیث کا انکار کیا، آج کے دور میں غامدی وغیرہ بھی اس کی باطل ڈگر پر چل نکلے ہیں، ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر حافظ محمد زبیر ﷾ نے منکرین حدیث کے تعاقب میں ”فکر غامدی“ کے نام سے ایک مفصل کتاب لکھی ہے جو پڑھنے کے قابل ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 561