ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب بھی میں نے اپنے بندوں کو بارش کی نعمت سے نوازا تو ان میں سے ایک گروہ اس کی وجہ سے کافر رہا، وہ لوگ کہتے رہے: فلاں ستارے نے ایسا کیا ہے، اور فلاں ستارے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حالانکہ ستاروں میں کوئی طاقت نہیں، وہ تو جماد ہیں، یہ نعمت تو اس ذات باری تعالیٰ نے دی ہے جس نے ستاروں، ساری مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1525
1525۔ اردو حاشیہ: مذکورہ طریقے پر بارش کی نسبت ستارے کی طرف کرنا (یعنی اس نے برسائی) کفریہ الفاظ ہیں۔ ایک موحد اس قسم کے الفاظ کہنے سے گریز کرتا ہے کیونکہ اس کا عقیدہ یہ نہیں ہوتا، مگر کافر تو اس عقیدے کے بھی قائل تھے۔ بہرصورت یہ الفاظ کفریہ ہیں، البتہ اگر ستارے کے طلوع وغیرہ کو بارش برسنے کی علامت یا وقت کہا جائے تو پھر یہ کفریہ الفاظ نہیں مگر ایک بے تحقیق اور غلط بات ضرور ہے، ہاں اگر بادلوں اور ہواؤں کی طرف بارش کی نسبت بطور علامت کرے تو کوئی حرج نہیں۔ احادیث اور کلام عرب اس پر دال ہیں، نیز یہ چیزیں بارش کا ظاہری سبب ہیں، بخلاف ستاروں کے کہ ان کا ظاہراً بارش سے کوئی تعلق نہیں، نیز اس میں ستارہ پرستوں سے مشابہت ہے، لہٰذا منع ہے۔ دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ان م یں سے ایک گروہ اس کی ناشکری کرتا ہے یا اس کے نعمت الٰہیہ ہونے کا انکار کرتا ہے۔ یہاں سے ضمناً یہ معلوم ہوا کہ عقائد میں مجازات اور استعارات کا استعمال درست نہیں، خصوصاً توحید جیسے مسئلے میں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1525