سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو مجرد (غیر شادی شدہ) رہ کر زندگی گزارنے سے منع فرمایا، اور اگر آپ انہیں اس کی اجازت دیتے تو ہم خصی ہو جاتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی نکاح و شادی بیاہ کے مراسم سے علاحدہ ہو کر صرف عبادت الٰہی میں مشغول رہتے، اور ہم اپنے آپ کو ایسا کر لیتے کہ ہمیں عورتوں کی خواہش ہی نہ رہ جاتی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3214
اردو حاشہ: حضرت عثمان مظعون رضی اللہ عنہ نوجوان تھے۔ بہت عبادت گزار تھے۔ انہوں نے نبیﷺ سے اجازت طلب کی کہ ہم ہر وقت عبادت میں مشغول رہیں اور عورتوں کے جھنجٹ میں نہ پڑیں، لیکن آپ نے اجازت نہ دی کیونکہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ انسانی خصائص کو قائم رکھتے ہوئے حقوق اللہ کی ادائیگی کرنا ہی اصل فضیلت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3214
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1848
´کنوارا رہنا منع ہے۔` سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی شادی کے بغیر زندگی گزارنے کی درخواست رد کر دی، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی ہوتی تو ہم خصی ہو جاتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1848]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ۔ حضرت عثمان بن مظعون ؓ عبادت کا بہت شوق رکھتے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ نکاح کر کے بیوی بچوں کے معاملات میں مشغول ہونے سے نفلی عبادت، یعنی نفلی نماز روزے کے مواقع کم ہو جاتے ہیں، اس لیے بہتر ہے نکاح نہ کیا جائے لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں بے نکاح رہنے کی اجازت نہ دی۔ صحابہ کرام ؓ نبی اکرم ﷺ سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے کیونکہ ممکن ہے ایک کام بظاہر نیکی کا ہو اور بہت اچھا معلوم ہوتا ہو لیکن شریعت کی رو سے وہ صحیح نہ ہو۔ بدعت بھی بظاہر نیکی ہوتی ہے لیکن اس کے ظاہری نیکی ہونے سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ خلاف سنت کام کتنا ہی اچھا معلوم ہوتا ہو، اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہندوؤں، جوگیوں یا عیسائی راہبوں کی طرح حلال چیزوں سے بھی پرہیز کیا جائے بلکہ کھانے، پینے اور دیگر معاملات میں شرعی ہدایات پر عمل کرنے سے اللہ کا قرب حاصل ہو تا ہے۔ کسی کو مردانہ قوت سے محروم کرنا یا خود اس قوت سے محروم ہونے کی کوشش کرنا شرعاً منع ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1848
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1083
´بے شادی زندگی گزارنے کی ممانعت کا بیان۔` سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون کو بغیر شادی کے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی، اگر آپ انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہو جاتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1083]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی ہم اپنے آپ کو ایساکرلیتے کہ ہمیں عورتوں کی خواہش رہ ہی نہیں جاتی تاکہ شادی بیاہ کے مراسم سے الگ تھلگ رہ کر ہم صرف اللہ کی عبادت میں مشغول رہ سکیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1083
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3406
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں، حضرت عثمان بن مظعون ؓ نے دنیوی لذائذ سے الگ تھلگ ہونے کا ارادہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فر دیا، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس کی اجازت مرحمت فر دیتے، تو ہم اپنی جنسی خواہش ختم کر ڈالتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3406]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: تبتل کا اصل معنی علیحدگی اور یکسوئی اختیار کرنا ہے، یعنی دنیوی لذات وشہوات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی خاطر چھوڑدینا، اوررہبانیت اختیار کرلینا ہے، ار اس میں سب سے بڑی رکاوٹ گھر، اور اہل وعیال اور ان کے معاش کے انتظامات ہیں، اس لیے اگر انسان شادی نہ کرے تو دنیا کے اکثر جھمیلوں سے آزاد ہوتا ہے اور اس کے لیے ترک دنیا آسان ہوجاتا ہے، اس لیے جب انسان خصی ہوجائے تو نہ رہے بانس اورنہ بجے بانسری، کے مطابق، خلوت یاترک دنیا میں حائل رکاوٹ ختم ہوجاتی ہے لیکن اسلام رہبانیت کی اجازت نہیں دیتا، وہ جلوت وخلوت میں چاہتا ہے کہ انسان کاروبار حیات میں مصروف رہ کر عبادت کے لیے وقت نکالے اوراللہ کا طاعت گزار بنے۔