سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
The Book of Marriage
76. بَابُ : تَحِلَّةِ الْخَلْوَةِ
76. باب: پہلی ملاقات میں بیوی کو خلوت کا تحفہ (عطیہ) دینے کا بیان۔
Chapter: A Gift Given Before Consummation Of The Marriage
حدیث نمبر: 3377
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن منصور، قال: حدثنا هشام بن عبد الملك، قال: حدثنا حماد، عن ايوب، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان عليا، قال:" تزوجت فاطمة رضي الله عنها، فقلت: يا رسول الله، ابن بي، قال:" اعطها شيئا، قلت: ما عندي من شيء، قال: فاين درعك الحطمية؟ قلت: هي عندي، قال: فاعطها إياه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عَلِيًّا، قَالَ:" تَزَوَّجْتُ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنِ بِي، قَالَ:" أَعْطِهَا شَيْئًا، قُلْتُ: مَا عِنْدِي مِنْ شَيْءٍ، قَالَ: فَأَيْنَ دِرْعُكَ الْحُطَمِيَّةُ؟ قُلْتُ: هِيَ عِنْدِي، قَالَ: فَأَعْطِهَا إِيَّاهُ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے ملنے کا موقع عنایت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: اسے کچھ (تحفہ) دو، میں نے کہا: میرے پاس تو کچھ ہے نہیں، آپ نے فرمایا: تیری حطمی زرہ کہاں ہے؟ میں نے کہا: یہ تو میرے پاس ہے، آپ نے فرمایا: وہی اسے دے دو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 10199) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن أبي داود2126عبد الله بن عباسأعطها درعك فأعطاها درعه ثم دخل بها
   سنن أبي داود2125عبد الله بن عباسأعطها شيئا قال ما عندي شيء قال أين درعك الحطمية
   سنن النسائى الصغرى3377عبد الله بن عباسأعطها شيئا قلت ما عندي من شيء قال فأين درعك الحطمية قلت هي عندي قال فأعطها إياه
   سنن النسائى الصغرى3378عبد الله بن عباسأعطها شيئا قال ما عندي قال فأين درعك الحطمية
   بلوغ المرام883عبد الله بن عباس أعطها شيئا

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3377 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3377  
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذکورہ زرہ کو مہر سے الگ سمجھ رہے ہیں اور اسے رخصتی اور خلوت (علیحدگی) کا خصوصی تحفہ قرار دیتے ہیں جب کہ بہت سے اہل علم کے نزدیک یہ مہر ہی ہے جو نکاح کی بجائے رخصتی کے موقع پر دیا گیا۔ واللہ أعلم۔
(2) حطمی زرہ بعض نے اہل علم نے کہا کہ حُطَمِیَّہ‘ زرہ کی صفت ہے‘ یعنی توڑ دینے والی اور اس سے مراد ہے تلواروں‘ نیزوں اور تیروں کو توڑ دینے والی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھلی اور بھاری زرہ کو حُطَمِیَّہ‘ کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حُطَمِیَّہ‘ قبیلئہ عبدالقیس کی ایک شاخ حطم بن محارب کی طرف منسوب ہے جس کے باشندے یہ زرہیں بناتے تھے۔ اور یہی قول زیادہ معتبر ہے۔ واللہ أعلم۔ دیکھیے: (النھایة فی غریب الحدیث: 1/402)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3377   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 883  
´حق مہر کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کچھ دو۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے؟ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 883»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، باب في الرجل يدخل بامرأته قبل أن ينقدها شيئًا، حديث:2125، والنسائي، النكاح، حديث:3377، والحاكم: لم أجده، وابن حبان (الإحسان):9 /50.»
تشریح:
1. اس حدیث سے مسئلۂ مہر کے علاوہ یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ماکان وما یکون حاصل نہیں تھا‘ اسی لیے آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت فرما رہے تھے کہ تمھاری حطمی زرہ کہاں ہے؟ ورنہ یوں فرماتے کہ تمھاری حطمی زرہ جو فلاں مقام پر تم نے رکھی ہوئی ہے وہ لا کر دے دو۔
2.یہ بھی معلوم ہوا کہ سسر حق مہر کا مطالبہ کر سکتا ہے‘ البتہ داماد سے وہی چیز طلب کی جائے جو اس کے پاس ہو۔
ایسی چیز کا تقاضا و مطالبہ نہ کیا جائے جو اس کے بس میں نہ ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 883   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.