فوائد: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں کندھے ڈھانپنا فرض ہے۔
➋ بعض لوگ نماز میں مردوں پر سر ڈھانپنا لازمی قرار دیتے ہیں لیکن اس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
شمائل الترمذی [ص 71 و فى نسختنا ص 4 حديث: 33، 125] کی روایت جس میں: «يكثر القناع» ”یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات اپنے سر مبارک پر کپڑا رکھتے تھے“ آیا ہے۔
وہ یزید بن ابان الرقاشی کی وجہ سے ضعیف ہے،
یزید پر جرح کے لئے تہذیب التہذیب
[ج11 ص 270] وغیرہ دیکھیں،
◈ امام نسائی رحمه الله نے فرمایا:
«متروك بصري» [كتاب الضعفاء: 642] ◈ حافظ ہیثمی نے کہا:
«ويزيد الرقاشي ضعفه الجهمور» ”اور یزید الرقاشی کو جمہور نے ضعیف کہا ہے۔
“ [مجمع الزوائد 226/6] ◈ تقریب التہذیب
[7683] میں لکھا ہوا ہے
«زاهد ضعيف» دیوبندیوں اور بریلویوں کی معتبر و مستند کتاب
”در مختار
“ میں لکھا ہوا ہے کہ جو شخص عاجزی کے لئے ننگے سر نماز پڑھے تو ایسا کرنا جائز ہے
[الدرالمختار مع رد المختار 474/1] اب دیوبندی فتویٰ ملاحظہ فرمائیں: سوال: ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جو شخص ننگے سر اس نیت سے نماز پڑھے کہ عاجزانہ درگاہ خدا میں حاضر ہو تو کچھ حرج نہیں۔
جواب: یہ تو کتب فقہ میں بھی لکھا ہے کہ بہ نیت مذکورہ ننگے سر نماز پڑھنے میں کراہت نہیں ہے۔
[فتاويٰ دارالعلوم ديوبند 94/4] احمد رضاخان بریلوی صاحب نے لکھا ہے:
”اگر بہ نیت عاجزی ننگے سر پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔
“ [احكام شريعت حصهٔ اول ص 130] بعض مساجد میں نماز کے دوران میں سر ڈھانپنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، اس لئے انہوں نے تنکوں سے بنی ہوئی ٹوپیاں رکھی ہوتی ہیں، ایسی ٹوپیاں نہیں پہننی چاہئیں، کیونکہ وہ عزت اور وقار کے منافی ہیں کیا کوئی ذی شعور انسان ایسی ٹوپی پہن کر کسی پروقار مجلس وغیرہ میں جاتا ہے؟ یقیناً نہیں تو پھر اللہ کے دربار میں حاضری دیتے وقت تو لباس کو خصوصی اہمیت دینی چاہئیے۔
اس کے علاوہ سر ڈھانپنا اگر سنت ہے اور اس کے بغیر نماز میں نقص رہتا ہے تو پھر داڑھی رکھنا تو اس سے بھی زیادہ ضروری بلکہ فرض ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کے بغیر کوئی نماز پڑھی ہے؟ اللہ تعالیٰ فہم دین اور اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔
تنبیہ: راقم الحروف کی تحقیق میں، ضرورت کے وقت ننگے سر مرد کی نماز جائز ہے لیکن بہتر و افضل یہی ہے کہ سر پر ٹوپی، عمامہ یا رومال ہو۔
❀ نافع تابعی کو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دیکھا کہ وہ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا:
”کیا میں نے تمہیں دو کپڑے نہیں دیئے؟ …کیا میں تمہیں اس حالت میں باہر بھیجوں تو چلے جاؤ گے؟
“ نافع نے کہا: نہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا اللہ اس کا زیادہ مستحق نہیں ہے کہ اس کے سامنے زینت اختیار کی جائے یا انسان اس کے زیادہ مستحق ہیں؟ پھر انہوں نے نافع رحمہ اللہ کو ایک حدیث سنائی جس سے دو کپڑوں میں نما زپڑھنے کا حکم ثابت ہوتا ہے۔
[السنن الكبريٰ للبيهقي ملخصًا 236/2 و سنده صحيح]