ابواسامہ نے کہا: ہمیں ہشام بن عروہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے میرے والد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی، انہوں نے کہا: بریرہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی: میرے مالکوں نے میرے ساتھ 9 سالوں میں 9 اوقیہ (کی ادائیگی) کے بدلے مکاتبت کی ہے۔ ہر سال میں ایک اوقیہ (ادا کرنا) ہے۔ میری مدد کریں۔ میں نے اس سے کہا: اگر تمہارے مالک چاہیں کہ میں انہیں یکمشت گن کر دوں اور تمہیں آزاد کر دوں اور ولاء کا حق میرا ہو، تو میں ایسا کر لوں گی۔ اس نے یہ بات اپنے مالکوں سے کی تو انہوں نے (اسے ماننے سے) انکار کر دیا الا یہ کہ حقِ ولاء ان کا ہو۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آئی اور یہ بات مجھے بتائی۔ کہا: تو میں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا، اور کہا: اللہ کی قسم! پھر ایسا نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو مجھ سے پوچھا، میں نے آپ کو (پوری) بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے خریدو اور آزاد کر دو، ان کے لیے ولاء کی شرط رکھ لو، کیونکہ (اصل میں تو) ولاء کا حق اسی کا ہے جس نے آزاد کیا۔" میں نے ایسا ہی کیا۔ کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے وقت خطبہ دیا، اللہ کی حمد و ثنا جو اس کے شایانِ شان تھی بیان کی، پھر فرمایا: "امابعد! لوگوں کو کیا ہوا ہے؟ وہ ایسی شرطیں رکھتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں (جائز) نہیں۔ جو بھی شرط اللہ کی کتاب میں (روا) نہیں، وہ باطل ہے، چاہے وہ سو شرطیں ہوں، اللہ کی کتاب ہی سب سے سچی اور اللہ کی شرط سب سے مضبوط ہے۔ تم میں سے بعض لوگوں کو کیا ہوا ہے، ان میں سے کوئی کہتا ہے: فلاں کو آزاد تم کرو اور حقِ ولاء میرا ہو گا۔ (حالانکہ) ولاء کا حق اسی کا ہے جس نے آزاد کیا
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میرے پاس بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا آئی اور کہا، میرے مالکوں نے میرے ساتھ، نو سال کے عرصہ کے لیے نو اوقیہ پر کتابت کی ہے، ہر سال ایک اوقیہ دینا ہو گا، آپ میرا تعاون فرمائیں، تو میں نے اسے جواب دیا، اگر تیرے مالک چاہیں تو میں ساری رقم یکمشت ادا کر کے تمہیں آزاد کر دیتی ہوں اور نسبت آزادی میری طرف ہو گی، تو میں ایسا کر دیتی ہوں، اس نے اس کا ذکر اپنے مالکوں سے کیا انہوں نے ولاء اپنے لیے لیے بغیر، اس سے انکار کر دیا، تو اس نے آ کر مجھے بتایا تو میں نے اس کی سرزنش کی، اور کہا، اللہ کی قسم! تب نہیں ہو گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بات سن لی اور مجھ سے پوچھا، تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خرید لو اور اسے آزاد کر دو، اور ان کی ولاء کی شرط مان لو، ولاء تو اس کو ملنی ہے، جس نے آزادی دی۔ تو میں نے ایسا کیا، پھر شام کو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا: اللہ کی حمد و ثناء بیان کی جو اس کی شان کے لائق ہے، پھر فرمایا: ”امابعد! لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں، جن کی اللہ کے حکم میں گنجائش نہیں ہے؟ جو شرط بھی ایسی ہو گی، جس کی اللہ کے قانون میں گنجائش نہیں، تو وہ باطل ہے، اگرچہ سو شرط ہوں، اللہ کا حکم ہی صحیح سے اور اللہ کی شرط ہی مستحکم ہے، تم میں سے کچھ مردوں کو کیا ہو گیا ہے، ان میں سے کوئی کہتا ہے تم فلاں کو آزاد کر دو اور نسبت آزادی میری طرف ہو گی، ولاء تو بس آزاد کرنے والے کے لیے ہے۔“