وعن علي رضي الله عنه انه كبر على سهل بن حنيف ستا وقال: إنه بدري. رواه سعيد بن منصور واصله في البخاري.وعن علي رضي الله عنه أنه كبر على سهل بن حنيف ستا وقال: إنه بدري. رواه سعيد بن منصور وأصله في البخاري.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ میں چھ تکبیریں کہیں اور فرمایا کہ وہ بدری تھے۔ اسے سعید بن منصور نے روایت کیا ہے اور اس اصل بخاری میں ہے۔
हज़रत अली रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि उन्हों ने सहल बिन हनीफ़ रज़िअल्लाहुअन्ह की नमाज़ जनाज़ा में छे तकबीरें कहीं और कहा कि वह बदरी थे । इसे सईद बिन मन्सूर ने रिवायत किया है और इस असल बुख़ारी में है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه سعيد بن منصوركما في فتح الباري:7 /318، وأصله في البخاري، حديث:4004. *إسماعيل ابن أبي خالد عنعن، وله شاهد عند البخاري في التاريخ الكبير:4 /97، وللحديث شواهد أخري.»
‘Ali bin Abi Talib (RAA) narrated that he said six Takbirat when he prayed over Sahl bin Hunaif, and he said (explaining his action), ‘He is one of the Companions, who fought in the Battle of Badr.’ Related by Sa’id bin Mansur.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 454
´بزرگی اور شرف کا لحاظ رکھتے ہوئے چار سے زائد تکبریں` ”سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ میں چھ تکبیریں کہیں اور فرمایا کہ وہ بدری تھے۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 454]
لغوی تشریح: «بَدَرِيّ» بدری سے مراد یہ ہے کہ وہ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ بدری ہونے کا شرف و بزرگی ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے چھ تکبیریں کہیں کہ اس طرح ان کے لیے زیادہ دعا کی جا سکے۔
فائدہ: اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ کسی کی بزرگی اور شرف کا لحاظ رکھتے ہوئے چار سے زائد تکبریں کہی جا سکتی ہیں۔ مزید تفصیل پچھلی حدیث (بلوغ المرام حدیث 252) میں کی گئی ہے۔
وضاحت: [حضرت سہل رضی اللہ عنہ بن حنیف ] حنیف تصغیر ہے۔ انصاری، اوسی اور مدنی ہیں۔ غزوہ بدر اور باقی غزوات و مشاہد میں حاضر تھے۔ غزوہ احد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں بصرہ پر عامل مقرر کیا اور صفین میں بھی ان کے ساتھ تھے۔ ہجرت مدینہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے مابین مواخات ہوئی۔ 38 ہجری میں وفات ہوئی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 454