فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 640
´کیا دونوں مؤذن ایک ساتھ اذان دیتے تھے یا یکے بعد دیگرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بلال اذان دیں تو کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں“، ان دونوں کے درمیان صرف اتنا وقفہ ہوتا تھا کہ یہ اتر رہے ہوتے اور وہ چڑھ رہے ہوتے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 640]
640 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ”ایک اترتا اور دوسرا چڑھ جاتا تھا۔“ اس سے قلت میں مبالغہ مقصود ہے، جیسا کہ عرف میں اس قسم کے جملے مشہور ہیں، ورنہ تو دو اذانوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی اکثر کتب میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ اذان اول کا آغاز رات کے دوسرے نصف حصے سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علماء کے ہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ پہلا مؤذن اذان کے بعد بیٹھا ذکر و دعا کرتا رہتا تھا حتیٰ کہ فجر طلوع ہوتی اور اسے نظر آنے لگتی تو وہ نیچے اتر کر دوسرے مؤذن کو اوپر بھیج دیتا تھا۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ دوسرے مؤذن حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینے تھے، فجر نہیں دیکھ سکتے تھے، انہیں اطلاع دینا ضروری تھا۔ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس قول کی تردید میں فرماتے ہیں: سیاق حدیث کی واضح مخالفت کے ساتھ ساتھ یہاں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کون سی خاص دلیل ہے جس کی بنا پر انہوں نے اس معنی کی تصحیح کی ہے اور یہ مفہوم مراد لیا ہے یہاں تک کہ ان کے لیے یہ تاویل کرنا جائز ہو گئی؟ دیکھیے: [فتح الباري: 125/2]
بہرحال لگتا ہے کہ دونوں اذانوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا، اسے منٹوں ہی میں بیان کیا جا سکتا ہے، گھنٹوں میں نہیں، یعنی اندازاً 20، 30 منٹ کا فاصلہ ہوتا ہو گا۔ واللہ أعلم۔
➌ روایت سے ثابت ہوا کہ دو مؤذن الگ الگ اذان کی پہچان کی سہولت کے لیے تھے نہ کہ اس لیے کہ دونوں اکٹھے اذان کہیں۔ اس کا تو کوئی فائدہ ہی نہ تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 640