صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
54. بَابُ خَرْصِ التَّمْرِ:
باب: کھجور کا درختوں پر اندازہ کر لینا درست ہے۔
حدیث نمبر: 1481
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَبَّاسٍ السَّاعِدِيِّ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ:" غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ، فَلَمَّا جَاءَ وَادِيَ الْقُرَى إِذَا امْرَأَةٌ فِي حَدِيقَةٍ لَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: اخْرُصُوا، وَخَرَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ أَوْسُقٍ، فَقَالَ لَهَا: أَحْصِي مَا يَخْرُجُ مِنْهَا، فَلَمَّا أَتَيْنَا تَبُوكَ، قَالَ: أَمَا إِنَّهَا سَتَهُبُّ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُومَنَّ أَحَدٌ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُ بَعِيرٌ فَلْيَعْقِلْهُ، فَعَقَلْنَاهَا، وَهَبَّتْ رِيحٌ شَدِيدَةٌ، فَقَامَ رَجُلٌ فَأَلْقَتْهُ بِجَبَلِ طَيِّءٍ وَأَهْدَى مَلِكُ أَيْلَةَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَغْلَةً بَيْضَاءَ وَكَسَاهُ بُرْدًا وَكَتَبَ لَهُ بِبَحْرِهِمْ، فَلَمَّا أَتَى وَادِيَ الْقُرَى، قَالَ لِلْمَرْأَةِ: كَمْ جَاءَ حَدِيقَتُكِ؟ , قَالَتْ: عَشَرَةَ أَوْسُقٍ خَرْصَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي مُتَعَجِّلٌ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَعَجَّلَ مَعِي فَلْيَتَعَجَّلْ، فَلَمَّا قَالَ ابْنُ بَكَّارٍ كَلِمَةً مَعْنَاهَا أَشْرَفَ عَلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: هَذِهِ طَابَةُ، فَلَمَّا رَأَى أُحُدًا , قَالَ: هَذَا جُبَيْلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ، أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ؟، قَالُوا: بَلَى، قَالَ: دُورُ بَنِي النَّجَّارِ، ثُمَّ دُورُ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، ثُمَّ دُورُ بَنِي سَاعِدَةَ أَوْ دُورُ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَفِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ , يَعْنِي خَيْرًا"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: كُلُّ بُسْتَانٍ عَلَيْهِ حَائِطٌ فَهُوَ حَدِيقَةٌ، وَمَا لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ حَائِطٌ لَمْ يُقَلْ حَدِيقَةٌ.
ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے ‘ ان سے عمرو بن یحییٰ نے ‘ ان سے عباس بن سہل ساعدی نے ‘ ان سے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم غزوہ تبوک کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی قریٰ (مدینہ منورہ اور شام کے درمیان ایک قدیم آبادی) سے گزرے تو ہماری نظر ایک عورت پر پڑی جو اپنے باغ میں کھڑی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ اس کے پھلوں کا اندازہ لگاؤ (کہ اس میں کتنی کھجور نکلے گی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس وسق کا اندازہ لگایا۔ پھر اس عورت سے فرمایا کہ یاد رکھنا اس میں سے جتنی کھجور نکلے۔ جب ہم تبوک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں۔ چنانچہ ہم نے اونٹ باندھ لیے۔ اور آندھی بڑے زور کی آئی۔ ایک شخص کھڑا ہوا تھا۔ تو ہوا نے اسے جبل طے پر جا پھینکا۔ اور ایلہ کے حاکم (یوحنا بن روبہ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفید خچر اور ایک چادر کا تحفہ بھیجا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری طور پر اسے اس کی حکومت پر برقرار رکھا پھر جب وادی قریٰ (واپسی میں) پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی عورت سے پوچھا کہ تمہارے باغ میں کتنا پھل آیا تھا اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازہ کے مطابق دس وسق آیا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مدینہ جلد جانا چاہتا ہوں۔ اس لیے جو کوئی میرے ساتھ جلدی چلنا چاہے وہ میرے ساتھ جلد روانہ ہو پھر جب (ابن بکار امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ نے ایک ایسا جملہ کہا جس کے معنے یہ تھے) کہ مدینہ دکھائی دینے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ہے طابہ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ دیکھا تو فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں انصار کے سب سے اچھے خاندان کی نشاندہی نہ کروں؟ صحابہ نے عرض کی کہ ضرور کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنو نجار کا خاندان۔ پھر بنو عبدالاشہل کا خاندان، پھر بنو ساعدہ کا یا (یہ فرمایا کہ) بنی حارث بن خزرج کا خاندان۔ اور فرمایا کہ انصار کے تمام ہی خاندانوں میں خیر ہے ‘ ابوعبداللہ (قاسم بن سلام) نے کہا کہ جس باغ کی چہار دیواری ہو اسے حدیقہ کہیں گے۔ اور جس کی چہار دیواری نہ ہو اسے حدیقہ نہیں کہیں گے۔
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1481  
´اللہ تعالیٰ نے بعض واقعات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی باخبر کر دیا`
«. . . قَالَ: أَمَا إِنَّهَا سَتَهُبُّ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُومَنَّ أَحَدٌ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُ بَعِيرٌ فَلْيَعْقِلْهُ، فَعَقَلْنَاهَا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1481]

فقہ الحدیث:
غزوہ تبوک کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا:
«اما إنها ستهب الليلة ريح شديدة فلا يقومن احد، ومن كان معه بعير فليعقله»
آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں۔
↰ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی باخبر کر دیا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آندھی آنے سے قبل ہی اس کی خبر مل گئی تھی، لیکن کوئی بھی اس خبر ملنے کی بنا پر صحابہ کرام کو عالم الغیب ثابت نہیں کرتا، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ملنے پر عالم الغیب ثابت کرنا کیسے درست ہے؟حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین میں جا بجا اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ علم غیب اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے، اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا!
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 71، حدیث/صفحہ نمبر: 5   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3079  
´بنجر زمینوں کو آباد کرنے کا بیان۔`
ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تبوک (جہاد کے لیے) چلا، جب آپ وادی قری میں پہنچے تو وہاں ایک عورت کو اس کے باغ میں دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا: تخمینہ لگاؤ (کہ باغ میں کتنے پھل ہوں گے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس وسق ۱؎ کا تخمینہ لگایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے کہا: آپ اس سے جو پھل نکلے اس کو ناپ لینا، پھر ہم تبوک آئے تو ایلہ ۲؎ کے بادشاہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفید رنگ کا ایک خچر تحفہ میں بھیجا آپ نے اسے ایک چادر تحفہ میں دی اور اسے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3079]
فوائد ومسائل:

اس خاتون کا یہ باغ غالباً کسی بنجر زمین کو آباد کرکے ہی لگایا گیا تھا۔
جو اس کی ملکیت سمجھا گیا۔
اور یہ ایک قابل قدر کام ہے۔
حاکم ایلہ نے اطاعت قبول کرلی تھی۔
اس لئے آپ نے حاکم ایلہ کو اس کا علاقہ لکھ دیا اور یہ بھی کہ وہ جزیہ ادا کریں گے۔


پھل اترنے سے پہلے اس کا اندازہ لگانا جائز ہے۔
تا کہ اس کے مطابق عشر وغیرہ ادا کیا جا سکے۔


رسول اللہ ﷺ کا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا۔
جو کہ معجزہ ہے۔
دیگر عام اندازہ لگانے والوں کا اندازہ یقینا کم یا زیادہ ہوتا ہے۔


غیر مسلم کا ہدیہ قبول کرلینا جائز ہے۔
بشرط یہ کہ کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔


سفر میں اپنا مقصد پورا کرلینے کے بعد گھر آنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3079