Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
5. باب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ
باب: چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1576
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مُعَاذٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْيَمَنِ" أَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنَ الْبَقَرِ مِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً، وَمِنْ كُلِّ حَالِمٍ يَعْنِي مُحْتَلِمًا دِينَارًا أَوْ عَدْلَهُ مِنَ الْمَعَافِرِ ثِيَابٌ تَكُونُ بِالْيَمَنِ".
معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن کی طرف روانہ کیا تو یہ حکم دیا کہ وہ گائے بیلوں میں ہر تیس (۳۰) پر ایک سالہ بیل یا گائے لیں، اور چالیس (۴۰) پر دو سالہ گائے، اور ہر بالغ مرد سے (جو کافر ہو) ایک دینار یا ایک دینار کے بدلے اسی قیمت کے کپڑے جو یمن کے معافر نامی مقام میں تیار کئے جاتے ہیں (بطور جزیہ) لیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الزکاة 8 (2455)، (تحفة الأشراف:11312)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة 12(24)، مسند احمد (5/230، 233، 247)، سنن الدارمی/الزکاة 5 (1663) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
نسائي (2455) الحديث الآتي (3038)
الأعمش مدلس وعنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 63

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1576 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1576  
1576. اردو حاشیہ:
➊ زکوۃ مسلمانوں پر فرض ہے اور انہی سے لی جاتی ہے جبکہ غیر مسلموں سے جزیہ لیا جاتا ہے۔ حدیث کا یہی مفہوم اور مراد ہے۔
➋ اونٹ کی زکوۃ میں حکم یہی ہے کہ مادہ جانور لیا جائے۔ صرف گائیوں کےبارے میں نر اور مادہ لینے میں رخصت ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نر اونٹ سے صرف گوشت اور سواری کا فائدہ ہوتا ہے جبکہ مادہ ان دونوں فائدوں کے علاوہ دودھ اور نسل کا بھی فائدہ دیتی ہے جو بیل سے نہیں ہے۔ اس لیے منفعت رسانی میں دونوں کو یکساں شمار کیا گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1576   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 485  
´گائے بیلوں کی زکاۃ کا حساب`
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کی طرف (عامل مقرر کر کے) بھیجا۔ ان کو حکم دیا کہ وہ تیس گائیوں پر ایک سالہ مادہ گائے یا نر بچھڑا وصول کریں اور ہر چالیس کی تعداد پر ایک دو سالہ بچھڑا لیا جائے اور ہر نوجوان سے ایک دینار یا معافری کپڑا لیا جائے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 485]
لغوی تشریح:
«مِنْ كُلِّ ثلَاَ ثِينَ بَقَرةً» یہ نصاب متفق علیہ ہے، کسی کا اس میں اختلاف نہیں۔ تیس سے کم پر کوئی چیز واجب نہیں مگر امام زہری کی رائے ہے کہ ہر پانچ گائے کی تعداد پر ایک بکری ہے۔ انہوں نے اس مسئلے کو انٹوں کے نصاب پر قیاس کیا ہے لیکن یہ بات مسلم ہے کہ نصاب کا تعین قیاس سے ثابت نہیں ہوتا۔
«بقرة» اسم جنس ہے اور تا اس میں وحدت کی علامت ہے، تانیث کی نہیں۔ یہ مذکر و مونث دونوں پر یکساں بولا: جاتا ہے۔
«تَبِيعاً اَوْ تَبِيعَةً» «تبيع» اسے کہتے ہیں جو ایک سال کی عمر مکمل کر کے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہو۔ اور «اَوْ» اس میں تخییر کے لیے ہے، یعنی سرکاری وصول کنندہ کو اختیار ہے چاہے مادہ حاصل کرے، چاہے نر وصول کرے۔
«مُسِنَّةٌ» اس جانور کو کہتے ہیں جس کے دو دانت نکل آئے ہوں، یعنی جو دو سال مکمل کر کے تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔
«وَمِنْ كُلَّ حَالِم» ہر بالغ سے جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہو، خواہ احتلام سے دو چار ہوا ہو یا ابھی نہ ہوا ہو۔
«دِينَارًا» غیر مسلم مردوں سے ایک دینار بطور جزیہ وصول کیا جائے گا۔
«اَوْعَدُلَهُ» عین پر فتحہ اور دال ساکن ہو تو اس سے مراد وہ چیز ہے جو قیمت میں کسی شے کے مساوی ہو۔ اور اگر عین کے نیچے کسرہ ہو تو پھر وہ چیز مراد ہے جو شکل و صورت میں کسی شے کی مساوی ہو۔ اور ایک قول کے مطابق عین کے نیچے کسرہ ہو تو پھر وہ چیز مراد ہے جو شکل و صورت میں کسی شے کے مساوی ہو۔ اور ایک قول کے مطابق عین پر فتحہ ہو یا کسرہ، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ برابر کے معنی ہیں۔
«مَعَافِرِياً» وہ چادریں جو یمن میں بنتی ہیں اور معافر کی طرف منسوب ہیں۔ معافر بروزن مساجد ہمدان کا ایک قبیلہ ہے، انہی کی طرف معافری کپڑے منسوب ہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققیین میں سے بعض نے حسن اور بعض نے صحیح قرار دیا ہے اور انہوں نے اس کے شواہد کا تذکرہ بھی کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔ اس حدیث کی اسنادی بحث اور مذکورہ مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیے: [الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد: 341، 339، 360، 23، 7 وارواء الغليل: 268/3۔ 271 رقم: 795، والسنن ابن ماجه بتحقيق الدكثور بشار عواد، حديث: 1804، 1803]
➋ تیس سے کم گائے بیلوں میں زکاۃ واجب نہیں۔
➌ گائے بیلوں کی زکاۃ کا حساب کرنے کے لیے دیکھنا چاہیے کہ ان کے تیس تیس یا چالیس چالیس کے کتنے گروہ بنتے ہیں، پھر اس کے مطابق ایک سال یا دو سال کے بچھڑے بچھڑیاں لے لی جائیں، یعنی تیس پر ایک سال کا ایک جانور اور چالیس پر دو سال کا ایک جانور واجب ہے۔ اس کے بعد ساٹھ پر ایک ایک سال کے دو جانور، ستر پر دو سال کے دو بچھڑے بچھڑیاں بطور زکاۃ ادا اور وصول کیے جائیں گے۔
➍ بھینس عرب کا جانور نہیں، اس لیے حدیث میں اس کا ذکر نہیں آیا لیکن اپنے فوائد قدر و قیمت اور شکل و شباہت کے لحاظ سے یہ گائے سے ملتا جلتا ہے، اس لیے احتیاط کا تقاضا ہے کہ اسے بھی گائے کے حکم میں سمجھا جائے۔ امام ابن منذر نے اس پر اجماع لکھا ہے کہ بھینس بھی گایوں کے حکم میں ہیں۔ دیکھیے: [فتاوي ابن تيميه: 34، 25]
بنابریں گائیں اور بھینسیں مل کر نصاب پورا ہوتا ہو تو زکاۃ ادا کر دی جائے۔
➎ زکاۃ میں وہ جانور دیا جائے جس کی تعداد ریوڑ میں زیادہ ہو، مثلاً: اگر بیس گائیں اور بھینسیں دس ہیں تو زکاۃ کے طور پر ایک سالہ بچھڑی دی جائے اور دس گائیں اور بیس بھینسیں ہیں تو ایک سالہ کٹڑا یا کٹڑی دی جائے۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 485   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 623  
´گائے کی زکاۃ کا بیان۔`
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ میں ہر تیس گائے پر ایک سال کا بچھوا یا بچھیا زکاۃ میں لوں اور ہر چالیس پر دو سال کی بچھیا زکاۃ میں لوں، اور ہر (ذمّی) بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر معافری ۱؎ کپڑے بطور جزیہ لوں ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 623]
اردو حاشہ:
1؎:
معافر:
ہمدان کے ایک قبیلے کا نام ہے اسی کی طرف منسوب ہے۔

2؎:
اس حدیث میں گائے کے تفصیلی نصاب کا ذکر ہے،
ساتھ ہی غیر مسلم سے جزیہ وصول کرنے کا بھی حکم ہے۔

3؎:
اس میں معافر کا ذکر نہیں ہے،
اس کی تخریج ابن ابی شیبہ نے کی ہے۔

4؎:
یعنی یہ مرسل روایت اوپر والی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ مسروق کی ملاقات معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے،
ترمذی نے اسے اس کے شواہد کی وجہ سے حسن کہا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 623