حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّأْمِ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلِ، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ، فَهُنَّ لَهُنَّ وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ لِمَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَمَنْ كَانَ دُونَهُنَّ فَمُهَلُّهُ مِنْ أَهْلِهِ، وَكَذَاكَ حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ يُهِلُّونَ مِنْهَا".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1526
حدیث حاشیہ:
(1)
پاک وہند کے باشندوں کےلیے بھی یلملم ہی میقات ہے، کیونکہ ان ممالک کے باشندے اس پہاڑ کے برابر سے گزر کر حدود حرم میں داخل ہوتے ہیں۔
چونکہ آج کل ہوائی جہاز کے ذریعے سے سفر ہوتا ہے، اس لیے جہاز جب میقات کے برابر سے گزرتا ہے تو کپتان خود اطلاع کرتا ہے کہ ہم میقات کے برابر سے گزررہے ہیں، لہٰذا حجاج کرام یا عمرہ کرنے والے احرام کی نیت کرلیں۔
ایسے حالات میں جہاز پر سوار ہوتے وقت ہی احرام کی نیت کی جاسکتی ہے، کیونکہ ممکن ہے جہاز سے ہونے والا اعلان اس کی بے خبری میں ہوجائے یا اس وقت وہ سویا ہوا ہو، اس لیے بہتر ہے کہ جہاز پر سوار ہوتے وقت ہی احرام کی نیت کرلی جائے۔
(2)
واضح رہے کہ جحفه کی آب وہوا بہت خراب ہے۔
وہ عرصے سے ویران ہے۔
لوگ وہاں جانے کے بجائے مقام رابغ سے احرام باندھ لیتے ہیں جو اس کے برابر پڑتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1526
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1740
´میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کے لیے عقیق کو میقات مقرر کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1740]
1740. اردو حاشیہ: اہل مشرق سےمراد مکہ سے مشرقی جانب کے علاقے ہیں یعنی عراق اور اس کے اطراف۔ اور عقیق نامی وادی ایک تو مدینہ کے قریب ہے دوسری یہی ہے جو ذات عرق کے قریب اور اس کے مقابل میں ہے اور یہاں یہی دورسری مراد ہے۔(مرعاۃ المفاتیح حدیث: 2554)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1740
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 590
´(احرام کے) میقات کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ، شام والوں کے لیے جحفہ، نجد والوں کے لیے قرن منازل اور یمن والوں کے لیے یلملم کو احرام باندھ کر نیت کرنے کی جگہیں مقرر کیا ہے اور یہ میقاتیں ان کے لیے ہیں (جن کا ذکر ہوا) اور ان لوگوں کے لیے بھی، جو دوسرے شہروں سے ان کے پاس سے حج یا عمرہ کے ارادہ سے گزریں اور جو کوئی ان میقاتوں کے ورے (اندر) ہو وہ جہاں سے چلے وہیں سے (احرام باندھے) یہاں تک کہ مکہ والے مکہ سے احرام باندھیں۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 590]
590 لغوی تشریح:
«بَابُ الْمَوَاقِيت» «مواقيت»، «ميقات» کی جمع ہے۔ اس سے مراد عبادت کے لیے وقت یا جگہ متعین کرنا ہے۔ اور یہاں ان سے وہ مقامات مراد ہیں جنہیں شارع علیہ السلام نے احرام کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ حج یا عمرہ کرنے والے کے لے اس سے آگے احرام باندھے بغیر حرم کی طرف جانا جائز نہیں ہے۔
«وَقَّتَ» یعنی احرام کے لیے میقات مقرر کیا۔ اور «تَوْقِيت» سے ماخوذ ہے جس کے معنی تحدید و تعین کے ہیں۔
«ذُو الْحُلَيْفَةِ» ”حا“ پر ضمہ ہے۔ (تصغیر ہے) مدینہ منورہ اور اس سے ملحقہ علاقوں کی طرف سے آنے والوں کا میقات ہے جو کہ مدینہ طیبہ کے وسط سے پانچ میل کی مسافت پر اور مکہ مکرمہ سے تقریباً ساڑھے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ آج کل بِئرِ عَلِی کے نام سے مشہور ہے۔
«اَلْجُحْفَة» ”جیم“ پر پیش اور ”حا“ ساکن ہے۔ شام، ترکی اور مصر کی جانب سے آنے والوں کا میقات ہے جو کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جو سمندر کے قریب مکہ مکرمہ سے ساڑھے چار مراحل اور مدینہ طیبہ سے پانچ اور دو تہائی، یعنی تقریباً پونے چھ مراحل پر واقع ہے، یعنی مکہ سے شمال مغرب میں 187 کلومیڑ کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا نام مھیعہ تھا۔ سیلاب آیا تو وہ سب بہا لے گیا جس کی بنا پر اسے جحفہ کہا جانے لگا کیونکہ «احتحاف» کہتے ہیں جڑ سے اکھیڑ دینے کو۔ اور اس سیلاب نے بھی یہی حشر کیا تھا۔ یہ بہت بڑی بستی تھی مگر اب ویران ہو چکی ہے، اسی لیے آج کل اس سے کچھ پہلے رابغ مقام سے احرام باندھتے ہیں کیونکہ وہاں پانی کا انتظام ہے۔
«قَرْنَ الْمَنَازِلِ» اسے «قَرْنَ الثَّعالِبِ» بھی کہا گیا ہے، یا یہ دو علیحدہ مقام ہیں۔ یہ بیضوی شکل کا چمک دار، گولائی والا اور چکنا پہاڑ ہے جو مکہ مکرمہ سے مشرق کی جانب 94 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ اہل نجد اور عرفات کی طرف سے آنے والوں کا میقات ہے۔
«يَلَمْلَم» ”یا“ اور ”لام“ دونوں پر فتحہ اور درمیانی میم ساکن ہے۔ مکہ مکرمہ سے جنوب کی طرف دو مرحلوں کی مسافت پر واقع پہاڑ کا نام ہے۔ مکہ مکرمہ اور اس کے درمیان تقریباً 92 کلومیٹر کی مسافت ہے۔ یہ یمن، چین، بنگلہ دیش، افغانستان، بھارت اور پاکستان کی طرف سے آنے والوں کا میقات ہے۔
«هُنَّ» یعنی یہ میقات اور مقامات۔
«لَهُنَّ» ان مذکورہ اہل بلدان (شہر والوں) کے لیے ہیں۔
«مِمَّنْ أرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمَرَةَ» جو حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے ہ جو شخص حج اور عمرے کی نیت سے نہ ہو وہ احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہو سکتا ہے۔
«وَمَنْ كَانَ دُونَ ذٰلِك» اور جو اس (احرام والی جگہ) کے اندر ہو، یعنی جو میقات اور مکہ مکرمہ کے درمیان رہتا ہو تو وہ اسی جگہ سے احرام باندھے۔
«مَنْ حَيْثُ أَنْشَأَ» جہاں سے نکلا ہے یا جہاں سے سفر کا آغاز کیا ہے، یعنی اپنے گھر اور اپنی بستی ہی سے احرام باندھے۔
«حَتّٰي أهَلُ مَكَّةَ مِنْ مَّكَّةَ» یہاں تک کہ اہل مکہ، مکہ مکرمہ ہی سے احرام باندھیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل مکہ حج اور عمرے کا احرام مکہ مکرمہ سے باندھیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 590
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 591
´(احرام کے) میقات کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر کیا۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے، مگر اس کے راوی نے اس کے مرفوع ہونے میں شک کیا ہے۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذات عرق کو میقات کیا تھا۔ احمد، ابوداؤد اور ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (مروی) ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق والوں کے لیے عقیق کو میقات مقرر فرمایا تھا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 591]
591 لغوی تشریح:
«ذَاتَ عِرَقٍ» عرق کی ”عین“ کے نیچے کسرہ ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے شمال مشرق میں 94 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ایک جگہ کا نام ہے۔ اور یہ قرن منازل کے برابر اس کے شمال میں واقع ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے۔
«وَفِي البخاري: اَنْ عُمَرَ هُوَ الَّذِيِ وَقَّتْ ذَاتَ عِرْقٍ» اور بخاری میں ہے کہ ذات عرق کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میقات مقرر کیا تھا۔ بظاہر تو یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع روایت کے خلاف ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مقرر کیا جبکہ بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مقرر کیا۔ اور ان دونوں میں جمع و تطبیق کی صورت یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مرفوع روایت نہ پہنچی ہو گی، چنانچہ انہوں نے اس بارے میں اجتہاد کیا تو ان کا اجتہاد درست سنت کے مطابق نکلا۔
«اَلْعَقيق» یہ ذات عرق سے کچھ پیچھے ایک جگہ کا نام ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ”ذات عرق“ کی حدود میں داخل ہے۔ ہر وہ وادی جسے سیلاب نے وسیع کر دیا ہو اسے «عقيق» کہتے ہیں جو «عق» سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں پھاڑنا۔ اہل مشرق سے اہل عراق اور ان کے راستے سے گزرنے والے مراد ہیں۔ ان دونوں احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ ”ذات عرق“ میقات واجب ہے اور ”عقیق“ میقات مستحب ہے کیونکہ وہ بھی ذات عرق ہی سے ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ یاد رہے کہ وادی مرالظھران جو آج کل وادی فاطمہ کے نام سے مشہور و معروف ہے، وہ طائف کے سامنے مکہ کی مشرقی جانب سے شروع ہوتی ہے اور مغرب میں جدہ کے قریب اس کی جنوبی سمت بحر احمر پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ اس وادی کے مشرق میں دو کنارے ہیں۔ ایک جنوبی کنارہ جو طائف کے راستے میں بڑی وادی کے پاس نخلہ یمانیہ سے پہلے ہے اور اسی کو قرن المنازل کہتے ہیں، اہل طائف اور اہل نجد جب مکہ کا قصد کرتے ہیں تو یہیں سے گزرتے ہیں۔ اور دوسرا شمالی کنارہ ضربیہ کے قریب ہے جسے ذات عرق کہتے ہیں، جہاں سے اہل عراق اور اہل نجد شمالی گزرتے ہیں اور یہ دونوں کنارے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان بہت مسافت ہے اور دونوں کی یہ مسافت مکہ مکرمہ سے ایک جیسی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذات عرق کو میقات مقرر کرنے میں اجتہاد سے کام لیا جو علاقے والوں کی ضرورت اور شریعت میں آسانی کے عین مطابق تھا، جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقررہ میقات کے موافق ہوا تو گویا نور علی نور کا مصداق ہوا۔
➋ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ جو شخص ایسے راستے پر چلے جہاں ان پانچوں میقات میں سے کوئی ایک بھی واقع نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ جونسے میقات کے برابر سے گزرے وہاں سے احرام باندھ لے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی میقات کے محاذ اور برابری کی وجہ ہی سے ذات عرق کو اہل عراق کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور تمام علماء اس اصول و ضابطے پر متفق ہیں۔ محاذات اور برابری کا مفہوم یہ ہے کہ میقات آدمی کے دائیں یا بائیں جانب واقع ہو رہا ہو اس حالت میں کہ وہ مکہ کی طرف جانے والا ہو۔ اس کی وضاحت یوں سمجھیے کہ جب ہم ان پانچوں میقات کو ایک خط کے ذریعے سے ملائیں تو مکہ مکرمہ کو ہر جانب سے وہ خط گھیرے میں لے لے، لہٰذا جب بھی کوئی شخص مکہ مکرمہ کی طرف ان میقات کے علاوہ کسی بھی جگہ سے آئے تو لازمی ہے کہ وہ اس خط پر سے گزرے گا جو دوسرے میقات سے ملارہا ہو گا۔ یہ خط ہی دراصل میقات کے محاذ اور برابر کا خط ہے، اس لیے حاجی جب اس خط سے باہر ہو گا وہ آفاق میں ہو گا، اس پر احرام واجب نہیں مگر جب اس خط کے پاس سے گزرے گا تو وہ میقات کے محاذ پر ہو گا، اس لیے اسے بغیر احرام کے آگے بڑھنا جائز نہیں ہو گا، پھر یہ تمام میقات خشکی پر ہیں اور انہیں ملانے والے خطوط بھی خشکی پر ہوں گے، لہٰذا جب تک کوئی شخص بحری جہاز کے ذریعے سے سمندر میں سفر کر رہا ہو گا وہ ان میقات کے برابر نہیں ہو گا۔ یہ صورت تو تبھی ہو گی جب وہ سمندری سفر سے فارغ ہو کر خشکی کے راستے پر پڑے گا۔ ہمارے تحقیق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان اور بھارت سے جو حجاج کرام بذریعہ بحری جہاز حج کرنے کے لیے جاتے ہیں، ان پر جدہ تک پہنچنے سے پہلے احرام باندھنا واجب نہیں کیونکہ وہ سمندری سفر میں نہ تو میقات سے گزرے ہیں اور نہ کسی میقات کے برابر ہی سے گزرے ہیں۔ ان کا جہاز بھی یلملم اور اس کے محاذات سے دور آفاق میں حدود میقات سے تقریباً ایک سو میل کی مسافت پر ہوتا ہے تو احرام باندھ لیتے ہیں، یہ لازمی نہیں ہے۔ ان کی مثال تو ابھی اس شخص کی سی ہے جو خرمہ سے طائف یا لیث سے طائف جا رہا ہے یا مدینہ طیبہ سے یا خیبر سے ینبع کی طرف ذوالحلیفہ کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے سے جا رہا ہو تو بلاشبہ میقات اس کے دائیں یا بائیں جانب آئے گا لیکن ابھی وہ میقات کے برابر نہیں آیا کیونکہ ابھی وہ حدود میقات سے پیچھے ہے۔ اسی طرح بحری جہاز پر سفر کرنے والا جب تک سمندر میں رہے گا وہ حدود میقات سے پیچھے ہو گا، اس کے برابر قطعاً نہیں ہو گا تاآنکہ جدہ پہنچ کر اترے کیونکہ جو خط یلملم اور جحفہ کو ملاتا ہے، وہ سمندر کے قریب جدہ سے کچھ آگے مکہ مکرمہ کی جانب پڑتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 591
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2655
´یمن والوں کی میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو، اہل شام کے لیے جحفہ کو، اہل نجد کے لیے قرن کو اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر کی اور فرمایا: ”یہ یہاں کے لوگوں کی میقات ہیں اور ان تمام لوگوں کی بھی جو یہاں سے ہو کر گزریں چاہے جہاں کہیں کے بھی رہنے والے ہوں۔ اور جو لوگ ان میقاتوں کے اندر کے رہنے والے ہیں تو ان کی میقات وہیں سے ہے جہاں سے وہ چلیں یہاں تک کہ مکہ والوں کی میقات مکہ ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2655]
اردو حاشہ:
یلملم مکہ مکرمہ سے تقریباً 92 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ آج کل اس کا نام سعدیہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے لوگ سمندری یا فضائی راستے سے جاتے ہیں تو یمن کی طرف سے ہو کر گزرتے ہیں اور یلملم کی سیدھ معلوم کر کے جہاز ہی میں احرام باندھ لیتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2655
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2658
´میقات کے اندر رہنے والے تلبیہ کہاں سے پکاریں گے؟`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا، اور شام والوں کے لیے جحفہ، اور نجد والوں کے لیے قرن (قرن المنازل) کو، اور یمن والوں کے لیے یلملم کو اور فرمایا: ”یہ سب یہاں کے رہنے والوں کے میقات ہیں، اور ان لوگوں کے میقات بھی جو حج کا ارادہ رکھتے ہوں اور ان پر سے ہو کر گزریں۔ اور جو لوگ اس میقات کے اندر رہتے ہوں تو وہ جہاں سے شروع کریں وہیں سے وہیں سے تلبیہ پک [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2658]
اردو حاشہ:
(1) ”حج و عمرے کے ارادے سے آئیں“ یہی بات صحیح ہے۔ احناف کا خیال ہے کہ جو شخص بھی مکہ جائے، خواہ کسی اور کام سے جائے، اس پر میقات سے احرام لازم ہے جیسے کہ تحیۃ المسجد ہے۔ لیکن الفاظ حدیث سے اس موقف کی تائید نہیں ہوتی، نیز مسجد میں آنے والے ہر شخص کے لیے تحیۃ المسجد ضروری نہیں بلکہ صرف اس شخص کے لیے ہے جو وہاں بیٹھنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ یہی بات حج وعمرہ کے ارادے سے آنے والوں کے لیے ہے، اس لیے ہر ہر فرد احرام کا مکلف نہیں۔
(2) ”جہاں سے چلیں“ یعنی اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں۔ احناف کا خیال ہے کہ میقات کے اندر رہنے والے لوگ حدود حرم میں داخل ہونے سے پہلے پہلے جہاں سے مرضی ہو، احرام باندھیں لیکن احادیث کی رو سے اپنے گھر ہی سے احرام باندھنا چاہیے۔
(3) ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مواقیت حج اور عمرہ دونوں کے لیے ہیں نہ کہ صرف حج کے لیے لہٰذا مکے والے عمرے کا احرام بھی اپنے گھر ہی سے باندھیں گے۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک مکے والے یا جو فی الوقت مکہ میں ہوں‘ عمرے کا احرام حدود حرم سے باہر آکر حل سے باندھیں۔ ان کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں عمرے کا احرام تنعیم (حرم کی قریب ترین حد مدینہ منورہ کی طرف) سے باندھنے کا حکم دیا تھا، حالانکہ وہ مکے میں تھیں۔ (صحیح البخاري، العمرة، حدیث: 7184، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: 1211) ممکن ہے مکے سے بھی جائز ہو مگر حدود حرم سے افضل ہو۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2658
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2659
´میقات کے اندر رہنے والے تلبیہ کہاں سے پکاریں گے؟`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا، اور شام والوں کے لیے جحفہ کو اور یمن والوں کے لیے یلملم کو، اور نجد والوں کے لیے قرن المنازل کو۔ یہ جگہیں یہاں کے لوگوں کے لیے میقات ہیں اور ان کے علاوہ لوگوں کے لیے بھی جو ان پر سے ہو کر گزریں، اور حج و عمرہ کا ارادہ رکھنے والوں میں سے ہوں اور جو لوگ ان جگہوں کے اندر رہتے ہوں تو وہ اپنے گھر ہی سے تلبیہ پکاریں یہاں تک [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2659]
اردو حاشہ:
(1) حج یا عمرے کو جانے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ عین ان مواقیت ہی سے گزرے بلکہ کسی اور جگہ سے بھی گزر سکتا ہے مگر جب وہ اپنے قریبی میقات کے برابر سے گزرے تو وہیں سے احرام باندھ لے۔
(2) آپ کے مقرر کردہ مواقیت میں سے ذوالحلیفہ مکہ مکرمہ سے شمال کی جانب، جحفہ بھی شمال کی جانب، یلملم جنوب کی جانب، قرن المنازل مشرق کی جانب اور ذات عرق بھی مشرق کی جانب ہیں اور جو لوگ دو میقاتوں کے درمیان سے گزریں تو وہ قریب ترین میقات کے برابر سے احرام باندھیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2659
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 832
´آفاقی لوگوں کے لیے احرام باندھنے کی میقاتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کی میقات عقیق ۱؎ مقرر کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 832]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ ایک معروف مقام ہے،
جو عراق کی میقات ”ذات العرق“ کے قریب ہے۔
نوٹ:
(سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے،
نیز محمد بن علی کا اپنے دادا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں ہے،
اور حدیث میں وارد ”عقیق“ کا لفظ منکر ہے،
صحیح لفظ ”ذات عرق“ ہے،
الإرواء: 1002،
ضعیف سنن ابی داود: 306)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 832
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2803
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ میقات مقرر کیا اور اہل شام کے لیے جحفہ، اہل نجد کے لیے قرن منازل، اہل یمن کے لیے يلملم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ چاروں میقات ان علاقوں کے رہنے والوں کے لیے ہیں اور ان سب لوگوں کے لیے جو دوسرے علاقوں سے ان مقامات سے گزریں، جن کا ارادہ حج یا عمرہ کا ہو، پس جو لوگ ان مقامات کے اندر ہوں تو وہ اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں گے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2803]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
توقیت کا معنی مقرر کرنا یا تعین وتحدید کرنا ہے اور شریعت نے حج کے لیے دوقسم کے میقات مقرر کیے ہیں۔
1۔
میقات زمانی:
وہ مہینے جن سے پہلے حج کے لیے احرام باندھنا بالاتفاق جائز نہیں ہے۔
شوال،
ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ان کو اشہر الحج کہاجاتا ہے۔
2۔
میقات مکانی:
وہ مقامات جہاں سے حج اور عمرہ کے لیے احرام باندھے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا،
لیکن ان سے پہلے جمہور کے نزدیک احرام باندھنا جائز ہے امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور داود رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جائز نہیں بعض احناف وشوافع کے نزدیک یہ بہتر ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان سے پہلے احرام باندھنا مکروہ ہے اور یہ میقات بالاتفاق پانچ ہیں۔
1۔
ذوالحلیفہ:
۔
جو مکہ سے سب سے زیادہ دور میقات ہے اور مدینہ سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور اب مدینہ کی آبادی یہاں تک پہنچ چکی ہے۔
2۔
حجفہ:
۔
جو بحرہ احمر سے دس کلومیٹر دور ہے اور بےآباد جگہ ہے اور وادی جموم کےراہ سے مکہ مکرمہ سے 186 کلومیٹر دور جگہ ہے اب لوگ رابغ جو ایک بہت بڑا شہر ہے سے احرام باندھتے ہیں۔
اہل لبنان،
اہل شام،
اردن،
فلسطین،
مصر،
سوڈان،
افریقہ کے لوگ یہیں سے احرام باندھتے ہیں۔
3۔
قرن منازل:
۔
جو مکہ مکرمہ سے سب سے قریبی میقات ہے اور تقریباً 30 میل کے فاصلہ پر ہے یا 45 کلومیٹر ہے۔
4۔
یلملم:
۔
جو مکہ مکرمہ کے جنوب میں تہامہ کی ایک پہاڑی ہے اور مکہ سے چالیس میل کے فاصلہ پر ہے۔
5۔
ذات عرق:
۔
مکہ معظمہ سے شمال مشرق میں عراق سے جانے والے راستہ پر 50 میل کے فاصلہ پر ہے۔
یہ پانچوں میقات ان علاقوں کے باشندوں کے لیے ہیں اوران کے علاوہ دوسرے تمام علاقوں کے ان لوگوں کے لیے ہیں جو حج اور عمرہ کے لیے ان سے گزریں اور جو لوگ ان سے دورسے گزریں،
وہ ان کے محاذات(مقابلہ)
میں جہاں سے گزرے ہیں،
احرام باندھیں اور جن لوگوں کا گھر،
میقات کے اندر واقعہ ہے ان کا میقات ان کا گھر ہی ہے حتی کہ اہل مکہ،
اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں گے۔
جمہور کے نزدیک حج کے لیے جانے والا اگراحرام باندھے ان مقامات سے گزر جائے اور احرام باندھنے کے لیے واپس نہ آئے تو اس پر دم لازم ہے۔
اما ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تلبیہ کہتے ہوئے واپس آئے گا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قریب ہو تو واپس آئے گا اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک واپس آنے کی صورت میں بھی دم دینا ہوگا۔
امام ابن حزم کے نزدیک احرام کے بغیر گزرنے والے کا حج نہیں ہو گا۔
جو لوگ میقات اورمکہ کے درمیان رہتے ہیں،
ان کے لیے اپنے گھر سے احرام باندھنا ضروری ہے تاخیر کی صورت میں دینا پڑے گا لیکن احناف کے نزدیک حرم سے پہلے پہلے احرام باندھنا کفایت کرجائےگا اس طرح اہل مکہ کے لیے مکہ سے احرام باندھنا لازم ہے،
لیکن احناف کے نزدک آخر حل تک تاخیر جائز ہے۔
اور یہ بات صریح حدیث کے خلاف ہے۔
اگرایک میقات تک مؤخر نہیں کرنا چاہیے۔
مثلاً شامی آدمی مدینہ آگیا ہے تو اسے ذوالحلیفہ سے احرام باندھنا ہوگا حجفہ تک مؤخر نہیں کرسکتا۔
اگرتاخیر کرے گا تو جمہور کےنزدیک گناہگار ہو گا اور دم پڑے گا،
اگرچہ بعض ائمہ کے نزدیک تاخیر خلاف افضل ہے،
لیکن جائز ہے اور اہل مکہ کوعمرہ کے لیے احرام کے لیے ائمہ اربعہ کے نزدیک حرم سے حل سے نکلنا ہوگا اور بقول علامہ سندھی امام بخاریل کے نزدیک حل میں نکلنے کی ضرورت نہیں ہے،
حج اورعمرہ دونوں کے لیے میقات مکہ ہی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2803
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2804
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو، اہل شام کے لیے جحفہ کو، اہل نجد کے لیے قرن منازل کو اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مقامات ان علاقوں کے باشندوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جو حج اور عمرہ کے ارادے سے دوسری جگہوں سے ان مقامت پر آئیں اور جو لوگ ان مواقیت کے اندر ہیں تو وہ جہاں سے چلیں احرام باندھ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2804]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے:
(من أراد الحج والعمرة)
جو حج اور عمرہ کا ارادہ کرے،
سے یہ استدلال کیا ہے کہ جو شخص حج یا عمرہ کے ارادہ کے بغیر مقامات سے گزرتا ہے مثلاً کسی ضرورت یا تجارت یا کسی سے ملاقات کے لیے مکہ جانا چاہتا ہے تو اس کے لیے احرام باندھنا ضروری نہیں ہے۔
امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اور ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مؤقف کو اختیار کیا ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہی ہے بقول صاحب تیسیر العلام جو لوگ حل سے مکہ میں بار بارآتے جاتے ہیں مثلاً لکڑ ہارے،
سبزی اور پھل فروش۔
ملازم اور مزدور ان کے لیے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سوا تمام ائمہ کے نزدیک احرام باندھے بغیر آنا جانا جائزہے۔
صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ مواقیت کے اندر رہتے ہیں اور انہیں ہر روز مکہ میں آنا جانا ہوتا ہے۔
ان کے لیے احرام باندھنا ضروری نہیں ہے لیکن جو لوگ مواقیت سے باہر سے آتے ہیں اور انہیں کبھی کبھار اس کی ضرورت پڑتی ہے تو انہیں بغیر احرام باندھے ان میقات سے نہیں گزرنا چاہیے۔
جس طرح اہل مکہ اگر اپنی ضروریات کے لیے مکہ سے باہر جائیں اور پھر احرام باندھے بغیر مکہ میں داخل ہوں تو یہ بالاتفاق جائز ہے۔
اسی طرح ضرورت مند اگر مکہ میں داخل ہوں تو ان پر بھی بالاتفاق احرام کی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
علامہ سرخسی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے احناف کا بھی یہی مؤقف ہے۔
اس لیے اختلاف صرف مواقیت سے باہر سے آنے والوں کے لیے ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
مالک رحمۃ اللہ علیہ اوراحمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک میقات سے باہر کے لوگ کسی صورت میں احرام باندھے بغیر ان مقامات سے گزر نہیں سکتے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ پابندی صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو حج یا عمرہ کرنا چاہتے ہیں دوسروں کے لیے یہ پابندی نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2804
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1524
1524. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات بنایا، اہل شام کے لیے جحفہ، اہل نجد کے لیے قرن المنازل اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر کیا۔ یہ میقات ان مقامات کے باشندوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو حج و عمرہ کا ارادہ کرتے ہوئے وہاں سے گزریں۔ اور جو لوگ ان مقامات کے اندر کی جانب ہیں وہ جہاں سے چلیں وہیں سے احرام باندھیں، چنانچہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام باندھ کر چلیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1524]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ حج اور عمرہ کے میقات میں کوئی فرق نہیں ہے۔
یہی حضر ت امام بخاری ؒ کا مقصد باب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1524
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1524
1524. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات بنایا، اہل شام کے لیے جحفہ، اہل نجد کے لیے قرن المنازل اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر کیا۔ یہ میقات ان مقامات کے باشندوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو حج و عمرہ کا ارادہ کرتے ہوئے وہاں سے گزریں۔ اور جو لوگ ان مقامات کے اندر کی جانب ہیں وہ جہاں سے چلیں وہیں سے احرام باندھیں، چنانچہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام باندھ کر چلیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1524]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے کئی ایک باتیں معلوم ہوئیں جن کی تفصیل یہ ہے:
٭ حج اور عمرے کے میقات میں کوئی فرق نہیں ہے۔
٭مقررہ میقات ان لوگوں کے لیے ہے جو ان مقامات کے رہائشی ہیں۔
٭ جو بھی ان راستوں سے گزرے گا وہ ان مقامات سے احرام باندھے گا، خواہ وہاں کا رہائشی نہ ہو۔
٭اہل مکہ اپنے مقام رہائش سے حج و عمرے کا احرام باندھیں گے۔
(2)
تجارت یا کسی اور کام کے لیے مکہ مکرمہ جانا پڑے تو اس کے لیے ان مقامات سے احرام باندھنا ضروری نہیں۔
یہ پابندی صرف حج یا عمرہ کرنے والوں کےلیے ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1524
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1529
1529. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لیے جحفہ، اہل یمن کے لیے یلملم اور اہل نجد کے لیے قرن کو میقات مقرر فرمایا۔ یہ میقات ان علاقہ جات (کے باشندوں) کے لیے ہیں اور ان کے لیے بھی جو ان کے علاوہ دوسرے مقامات سے آئیں اور یہاں سے گزریں بشرطیکہ وہ حج وہ عمرے کا ارادہ کریں۔ اور جو لوگ ان مواقیت کے اندرہیں وہ اپنے گھر سے احرام باندھیں حتی کہ باشندگان مکہ، مکہ مکرمہ ہی سے احرام باندھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1529]
حدیث حاشیہ:
(1)
مذکورہ عناوین کے تکرار کے ساتھ حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس ؓ کی احادیث کا تکرار مشائخ کے اختلاف اور احادیث کے طرق کے اختلاف کا باعث ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو مذکورہ مواقیت کے اندر کی جانب رہنے والے ہیں وہ اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں گے۔
اسی طرح اہل مکہ بھی اپنی قیام گاہ سے احرام باندھیں گے، انہیں باہر حِل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
البتہ جو لوگ عارضی طور پر مکہ میں رہائش رکھے ہوئے ہوں اگر وہ عمرہ کرنا چاہتے ہیں تو میقات سے جا کر احرام باندھیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1529
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1530
1530. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات بنایا، اہل شام کے لیے جحفہ، اہل نجد کے لیے قرن منازل اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر فرمایا۔ یہ مقامات ان لوگوں کے میقات ہیں جو وہاں کے باشندے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو حج و عمرہ کا ارادہ کرتے ہوئے ان مقامات سے گزریں۔ اور جو لوگ ان مقامات کے اندر کی جانب ہیں وہ جہاں سے چلیں وہیں سے احرام باندھیں حتی کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام کی نیت کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1530]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان مقامات کی تعیین فرمائی۔
(2)
قرن کے نام سے دو مقام مشہور ہیں:
نشیبی علاقے کو قرن منازل اور چڑھائی کے علاقے کو قرن ثعالب کہا جاتا ہے۔
قرن ثعالب میقات نہیں ہے۔
اسی طرح یلملم بھی ایک پہاڑ کا نام ہے جو مکہ سے تیس میل کے فاصلے پر ہے لیکن جحفه کے مقام کو لوگوں نے ترک کر دیا ہے کیونکہ وہ وبائی امراض کی آماجگاہ ہے۔
جو وہاں پڑاؤ کرتا ہے اسے بخار چڑھ جاتا ہے، اس لیے لوگوں نے اس کے بالمقابل مقام رابغ کو میقات بنا لیا ہے۔
(فتح الباري: 485/3)
ذوالحلیفہ کو آج کل بئر علی کہا جاتا ہے۔
اس سے مکہ مکرمہ 198 میل دور ہے اور مدینہ سے دس میل آگے ہے۔
یہ میقات دیگر مواقیت سے مکہ جانے کے لیے بہت مسافت پر واقع ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1530
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1845
1845. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اہم مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر فرمایا۔ نجد والوں کے لیے قرن منازل اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات قراردیا۔ یہ میقات ان ممالک کے باشندوں اور دوسرے تمام ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جو ان ممالک سے گزرکر مکہ آئیں اور وہ حج و عمرے کا ارادہ رکھتے ہوں، البتہ جو لوگ ان میقات کی حدود کے اندر ہوں تو ان کا میقات وہی جگہ ہے جہاں سے وہ اپنا سفر شروع کریں یہاں تک کہ اہم مکہ کا میقات مکہ مکرمہ ہی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1845]
حدیث حاشیہ:
دخول مکہ کے عام طور پر تین مقاصد ہو سکتے ہیں:
پہلا تو یہ کہ حج و عمرے کی نیت سے مکہ میں داخل ہو۔
اس صورت میں بالاتفاق احرام کے بغیر داخل ہونا ناجائز ہے۔
دوسرا یہ کہ حج و عمرے کی نیت کے بغیر مکہ میں داخل ہونا جیسا کہ لکڑ ہارے یا سبزی فروش مکہ میں آتے جاتے ہیں۔
ان کے لیے احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہونا جائز ہے۔
بار بار آنے کی وجہ سے ان کے لیے احرام کا التزام باعث مشقت ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ کسی ضرورت کے لیے مکہ میں داخل ہو لیکن یہ ضرورت بار بار پیش نہیں آتی۔
اس صورت میں بھی بعض حضرات احرام کی پابندی لگاتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی مشقت نہیں، البتہ امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ مذکورہ حدیث کے پیش نظر احرام کی پابندی صرف اس شخص کے لیے ہے جو حج یا عمرے کی نیت سے مکہ میں داخل ہو، اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے احرام کی پابندی لگانا بلا دلیل ہے۔
روایت و درایت کے اعتبار سے امام بخاری کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1845