سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
73. باب فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
باب: روزے کی نیت نہ کرنے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2455
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ. ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، جَمِيعًا عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ،عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَيَّ، قَالَ:" هَلْ عِنْدَكُمْ طَعَامٌ؟ فَإِذَا قُلْنَا: لَا. قَالَ: إِنِّي صَائِمٌ". زَادَ وَكِيعٌ: فَدَخَلَ عَلَيْنَا يَوْمًا آخَرَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" أُهْدِيَ لَنَا حَيْسٌ فَحَبَسْنَاهُ لَكَ. فَقَالَ: أَدْنِيهِ. قَالَ طَلْحَةُ: فَأَصْبَحَ صَائِمًا وَأَفْطَرَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے پاس تشریف لاتے تو پوچھتے: کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ جب میں کہتی: نہیں، تو فرماتے: ”میں روزے سے ہوں“، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ہدیے میں (کھجور، گھی اور پنیر سے بنا ہوا) ملیدہ آیا ہے، اور اسے ہم نے آپ کے لیے بچا رکھا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لاؤ اسے حاضر کرو“۔ طلحہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے سے ہو کر صبح کی تھی لیکن روزہ توڑ دیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 32 (1154)، سنن الترمذی/الصوم 35 (734)، سنن النسائی/الصیام 39 (2327)، سنن ابن ماجہ/الصیام 26 (1701)، (تحفة الأشراف: 17872)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/49، 207) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1154)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2455 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2455
فوائد ومسائل:
نفلی روزے میں یہ رخصت ہے کہ اس کی نیت بعد از فجر بقول بعض زوال سے پہلے تک ہو سکتی ہے۔
ایسے ہی اگر کسی نے نفلی روزے کی نیت کر رکھی ہو تو کسی معقول عذر کی بنا پر افطار کر سکتا ہے۔
اس کی قضا کرنا ضروری نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2455
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2326
´روزہ میں نیت کا بیان اور اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا والی حدیث میں طلحہ بن یحییٰ بن طلحہ پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تھے اور پوچھتے تھے: ”کیا تمہارے پاس کھانا ہے؟“ میں کہتی تھی: نہیں، تو آپ فرماتے تھے: ”میں روزہ سے ہوں“، ایک دن آپ ہمارے پاس تشریف لائے، اس دن ہمارے پاس حیس کا ہدیہ آیا ہوا تھا، آپ نے کہا: ”کیا تم لوگوں کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟“ ہم نے کہا: جی ہاں ہے، ہمارے پاس ہدیہ میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2326]
اردو حاشہ:
اس کا بیان پیچھے ہو چکا ہے کہ قاسم نے طلحہ کا استاد مجاہد کے بجائے عائشہ بنت طلحہ بتایا ہے۔ آگے آنے والی ایک حدیث: (2330) میں دونوں مذکور ہیں، گویا کہ دونوں کا ذکر صحیح ہے۔ باب: 67 کے تحت مذکور وضاحت ملاحظہ فرمائیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2326
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1701
´فرض روزے کی نیت رات میں ضروری ہونے اور نفلی روزے میں اختیار ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے اور پوچھتے: ”کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے“؟ ہم کہتے: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے: ”میں روزے سے ہوں“، اور اپنے روزے پر قائم رہتے، پھر کوئی چیز بطور ہدیہ آتی تو روزہ توڑ دیتے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کبھی روزہ رکھتے، اور کبھی کھول دیتے، میں نے پوچھا: یہ کیسے؟ تو کہا: اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی صدقہ نکالے پھر کچھ دے اور کچھ رکھ لے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1701]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نفلی روزہ پورا کرنا ثواب ہے اور کسی وجہ سے نامکمل چھوڑ دینا بھی ناجا ئز ہے لیکن اس صورت میں اسے ثواب نہیں ملے گا۔
(2)
نفلی صدقے میں جس قدر چیز دینے کا اراده کیا جا ئے اگر دیتے وقت اس سے کم دے دے تو بھی گناه گا ر نہیں صرف ثواب اتنا کم ہو جا ئے گا۔
(3)
مسئلہ واضح کر نے کے لئے اس سے ملتے جلتے مسئلے کی مثال دے کر سمجھا دینا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1701
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 734
´رات میں روزے کی نیت کئے بغیر نفلی روزہ رکھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے تو پوچھتے: ”کیا تمہارے پاس کھانا ہے؟“ میں کہتی: نہیں۔ تو آپ فرماتے: ”تو میں روزے سے ہوں“، ایک دن آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ایک ہدیہ آیا ہے۔ آپ نے پوچھا: ”کیا چیز ہے؟“ میں نے عرض کیا: ”حیس“، آپ نے فرمایا: ”میں صبح سے روزے سے ہوں“، پھر آپ نے کھا لیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 734]
اردو حاشہ: 1 ؎:
ایک قسم کا کھانا جو کھجور،
ستّو اور گھی سے تیار کیا جاتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 734
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:190
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نفلی روزہ دعوت کے قبول کرنے کی غرض سے چھوڑ نا درست ہے۔ فرضی روزہ توڑنا منع ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 190
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:191
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نفلی روزے کی نیت دن کو بھی کرنا درست ہے، اس کی شرط یہ ہے کہ اذان سے لے کر دن کے اس وقت تک کوئی چیز نہ کھائی ہو اور نہ پی ہو۔ بے شمار محدثین نے اس حدیث سے یہی مسئلہ اخذ کیا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 191
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2715
حضرت اُم المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس تشریف لائے ارو پوچھا: ”کیا تمھارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟“ تو ہم نے کہا: نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ”تو اب ہم روزہ دار ہیں۔“ پھرایک دن تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمیں مالیدہ کا ہدیہ ملا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے دکھائیے میں نے تو آج روزے کی نیت کی تھی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2715]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ نفلی روزے کی نیت دن میں بھی کی جا سکتی ہے دوسری یہ کہ نفلی روزہ توڑا بھی جا سکتا ہے اور نفلی روزہ توڑنا جرم یا گناہ نہیں ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کا یہی مؤقف ہے۔
اگرچہ اس کی جگہ روزہ رکھنا مستحب ہے تاکہ اجروثواب حاصل ہو سکے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نفلی روزہ توڑنا جائز نہیں ہے ایسا کرنے والا گناہ کار ہے اور اس پر قضائی واجب ہے کیونکہ یہ اپنے عمل کو باطل اور رائیگاں ٹھہرانا ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔
کیونکہ نفلی روزہ رکھنے والا شرعی طور پر بااختیار ہے کہ چاہے وہ روزہ پورا کرے یا کسی وجہ سے توڑنا چاہے تو توڑدے،
وہ پورا کرنے کا پابند نہیں ہے اگر پابند ہوتا تو پھر توڑنے کی صورت میں عمل باطل ٹھہرتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2715