حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ، وَكَانَ أَفْضَلَ أَهْلِ زَمَانِهِ , يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ:" طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ هَاتَيْنِ حِينَ أَحْرَمَ، وَلِحِلِّهِ حِينَ أَحَلَّ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ، وَبَسَطَتْ يَدَيْهَا".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 270
´جس نے خوشبو لگائی پھر غسل کیا اور خوشبو کا اثر اب بھی باقی رہا`
«. . . قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ، أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ فَذَكَرْتُ لَهَا قَوْلَ ابْنِ عُمَرَ، مَا أُحِبُّ أَنْ أُصْبِحَ مُحْرِمًا أَنْضَخُ طِيبًا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ " أَنَا طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ طَافَ فِي نِسَائِهِ، ثُمَّ أَصْبَحَ مُحْرِمًا " . . . .»
”. . . ہم سے ابوعوانہ نے ابراہیم بن محمد بن منتشر سے، وہ اپنے والد سے، کہا میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول کا ذکر کیا کہ میں اسے گوارا نہیں کر سکتا کہ میں احرام باندھوں اور خوشبو میرے جسم سے مہک رہی ہو۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی۔ پھر آپ اپنی تمام ازواج کے پاس گئے اور اس کے بعد احرام باندھا۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنْ تَطَيَّبَ ثُمَّ اغْتَسَلَ وَبَقِيَ أَثَرُ الطِّيبِ:: 270]
� تشریح:
حدیث سے ترجمہ باب اس طرح ثابت ہوا کہ غسل کے بعد بھی آپ کے جسم مبارک پر خوشبو کا اثر باقی رہتا تھا۔ معلوم ہوا کہ ہم بستری کے وقت میاں بیوی کے لیے خوشبو استعمال کرنا سنت ہے، جیسا کہ ابن بطال نے کہا ہے (فتح الباری) باقی تفصیل حدیث نمبر 262 میں گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 270
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 271
´جس نے خوشبو لگائی پھر غسل کیا اور خوشبو کا اثر اب بھی باقی رہا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الطِّيبِ فِي مَفْرِقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ " . . . .»
”. . . عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ نے فرمایا گویا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھے ہوئے ہیں۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنْ تَطَيَّبَ ثُمَّ اغْتَسَلَ وَبَقِيَ أَثَرُ الطِّيبِ:: 271]
� تشریح:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مختصر ہے، تفصیلی واقعہ وہی ہے جو اوپر گزرا، باب کا مطلب اس حدیث سے یوں نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کا غسل ضرور کیا ہو گا۔ اسی سے خوشبو لگانے کے بعد غسل کرنا ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 271
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5918
5918. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا: گویا میں اب بھی نبی ﷺ کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں جبکہ آپ احرام کی حالت میں تھے۔ حضرت عبداللہ بن رجاء نے (مفارق کے بجائے) مفرق النبی ﷺ کے الفاظ کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5918]
حدیث حاشیہ:
ہر دو احادیث میں باب کی مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5918
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5923
5923. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو سب سے عمدہ خوشبو لگایا کرتی تھی یہاں تک کہ خوشبو کی چمک آپ کی ڈاڑھی اور سر میں دیکھتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5923]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو بہت ہی محبوب تھی۔
اس لیے کہ عالم بالا سے آپ کا تعلق ہر وقت رہتا تھا خاص طور پر حضرت جبرئیل علیہ السلام بکثرت حاضر ہوتے رہتے تھے اس لیے آپ کا صاف معطر رہنا ضروری تھا۔
صلی اللہ علیہ وسلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5923
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2685
´احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانے کی اباحت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھنے کے وقت جس وقت آپ نے احرام باندھنے کا ارادہ کیا اور احرام کھولنے کے وقت اس سے پہلے کہ آپ احرام کھولیں اپنے دونوں ہاتھوں سے خوشبو لگائی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2685]
اردو حاشہ:
(1) ”اپنے ہاتھوں سے۔“ یعنی خوشبو اپنے ہاتھوں میں لگا کر وہ خوشبو آپ کے جسم اطہر پر لگا دی۔
(2) احرام کے وقت خوشبو لگانے کا مطلب یہ ہے کہ احرام کے غسل کے بعد خوشبو لگائی جائے۔ پھر احرام کا لباس پہن لیا جائے۔ جمہور اہل علم اس کا یہی مفہوم بیان کرتے ہیں، تاہم اہل علم کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ احرام کے غسل سے قبل خوشبو لگائی جائے، پھر غسل کر کے احرام باندھا جائے۔ دلائل کی رو سے جمہور اہل علم کا موقف راجح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 24/90-93)
(3) ”حلال ہونے کے وقت۔“ یعنی قربانی اور حجامت کے بعد کیونکہ اس وقت احرام ختم ہو جاتا ہے، لہٰذا خوشبو جائز ہے مگر طواف زیارت (جو اسی دن کیا جاتا ہے) کرنے سے پہلے جماع جائز نہیں۔ یہی مطلب ہے ان الفاظ کا: ”پہلے اس سے کہ مکمل حلال ہوں۔“ کیونکہ مکمل حلال تو طواف زیارت کی ادائیگی کے بعد ہی ہوں گے۔ وضاحت آئندہ حدیث میں ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2685
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2688
´احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانے کی اباحت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے احرام کے لیے خوشبو لگائی جس وقت آپ نے احرام باندھا، اور آپ کے احرام کھولنے کے لیے خوشبو لگائی اس کے بعد کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، اور اس سے پہلے کہ آپ بیت اللہ کا طواف کریں۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2688]
اردو حاشہ:
”جمرۂ عقبہ کو رمی کرنے کے بعد۔“ بلکہ قربانی اور حجامت وغیرہ کے بعد، یعنی طواف زیارت سے پہلے خوشبو لگائی جیسا کہ روایت میں ہے۔ یہ چیزیں چونکہ عقلاً مفہوم ہیں، لہٰذا ان کا ذکر نہیں فرمایا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2688
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2689
´احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانے کی اباحت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے احرام کھولنے کے لیے خوشبو لگائی، اور آپ کے احرام باندھنے کے لیے خوشبو لگائی جو تمہاری اس خوشبو کے مشابہ نہیں تھی، یعنی یہ خوشبو دیرپا نہ تھی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2689]
اردو حاشہ:
”جو باقی نہیں رہتی۔“ یعنی تمھاری خوشبو سے وہ خوشبو بہت بڑھیا اور اعلیٰ تھی۔ تمھاری خوشبو تو باقی نہیں رہتی مگر آپ کی خوشبو تو تادیر باقی رہتی تھی جیسا کہ آئندہ احادیث میں اس بات کا صراحتاً ذکر ہے۔ بعض لوگوں نے اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو لی ہے، یعنی آپ کی خوشبو باقی نہیں رہتی تھی۔ مگر یہ مفہوم آئندہ احادیث کے صریح الفاظ سے متصادم ہے۔ ویسے بھی یہ الفاظ: ”جو باقی نہیں رہتی۔“ کسی نچلے راوی کے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نہیں۔ لفظ تعنی اس پر دلالت کر رہا ہے۔ اور کسی نچلے راوی کے فہم کو صریح مرفوع روایات پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2689
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2693
´احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانے کی اباحت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھنے سے پہلے اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے ایسی خوشبو لگائی جس میں مشک کی آمیزش تھی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2693]
اردو حاشہ:
(1) ”قربانی والے دن۔“ سے مراد ذوالحجہ کی دس تاریخ ہے۔
(2) معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لگائی جانے والی خوشبو انتہائی اچھی تھی جس کی مہک عرصہ دراز تک باقی رہتی تھی۔ کستوری بہترین خوشبو ہے۔
(3) کستوری پاک ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2693
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2695
´احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانے کی اباحت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں اس حال میں کہ آپ محرم ہوتے خوشبو کی چمک دیکھی جاتی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2695]
اردو حاشہ:
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو کے اثرات احرام کے دوران میں بھی محسوس ہوتے تھے اگرچہ وہ احرام سے قبل لگائی جاتی تھی۔ یہی بات صحیح ہے۔ مگر بعض حنفی اور مالکی حضرات نے اسے عوام الناس کے لیے جائز نہیں سمجھا کیونکہ خوشبو بھی جماع کے اسباب میں سے ہے اور احرام کے دوران میں جماع کے اسباب بھی منع ہیں۔ مگر شاید وہ اس بات کو نظر انداز کر گئے کہ یہ خوشبو احرام سے قبل کی ہے نہ کہ دوران احرام لگائی گئی۔ خوبصورتی بھی تو جماع کے اسباب سے ہے، تو کیا احرام کے بعد خوبصورتی کا باقی رہنا گنا ہے؟ ہاں احرام کے دوران میں زیب وزینت منع ہے، اسی طرح یہ مسئلہ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2695
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2696
´خوشبو لگانے کی جگہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: گویا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر میں اس حال میں کہ آپ محرم ہیں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2696]
اردو حاشہ:
(1) رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد وہ اس منظر کو بیان فرما رہی ہیں جو انھوں نے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا تھا، اس لیے یہ پیرایۂ بیان اختیار فرمایا۔
(2) ”خوشبو کی چمک“ گویا خوشبو کو کسی تیل وغیرہ میں شامل کر کے لگایا گیا ہو گا یا پھر کسی خوشبو دار پھول کا تیل نکالا گیا ہوگا۔ وہ چمک اس تیل کی تھی جومکمل طور پر زائل نہ ہوا تھا۔ ظاہر ہے خوشبو بھی آتی تھی۔
(3) ممکن ہے باب کا مقصد یہ ہو کہ ایسی جگہ خوشبو لگائی جائے جو کپڑوں کو نہ لگے یا مقصد یہ ہو کہ خوشبو بدن کو لگائی جائے، کپڑوں کو نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2696
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2697
´خوشبو لگانے کی جگہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی جڑوں میں اس حال میں کہ آپ محرم ہوتے خوشبو کی چمک دیکھتی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2697]
اردو حاشہ:
رسول اللہﷺ یہ خوشبو احرام سے قبل لگاتے تھے۔ احرام کے بعد بھی اس کے کچھ اثرات باقی رہ جاتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2697
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2702
´خوشبو لگانے کی جگہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی سے اچھی خوشبو جو مجھے میسر ہوتی لگاتی تھی یہاں تک کہ احرام سے پہلے میں آپ کے سر اور داڑھی میں خوشبو کی چمک دیکھتی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2702]
اردو حاشہ:
رسول اللہﷺ کو خوشبو تو حضرت عائشہؓ ہی لگاتی تھیں مگر حدیث نمبر 2701 میں مجازاً نسبت آپ کی طرف کر دی ہے۔ یہ بھی بلاغت کلام کا ایک انداز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2702
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2706
´خوشبو لگانے کی جگہ کا بیان۔`
محمد بن منتشر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ مجھ پر تار کول مل دیا جائے تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں احرام کی حالت میں صبح کروں اور میرے جسم سے خوشبو بکھر رہی ہو۔ تو میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، اور میں نے انہیں ان کی بات بتائی تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی پھر آپ اپنی بیویوں کے پاس پھرے، آپ نے صبح کیا اس حال میں کہ آپ محرم تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2706]
اردو حاشہ:
چونکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا علم نہیں تھا، اس لیے وہ اس کے قائل نہیں تھے۔ بسا اوقات جلیل القدر صحابہ کسی مسئلے سے ناواقف ہوتے ہیں، مثلاً: حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عمر، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ان کے علاوہ بھی بعض صحابہ سے ایسی مثالیں ملتی ہیں، لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ﴿وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ﴾ (یوسف12: 76)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2706
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2927
´احرام کے وقت خوشبو لگانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں، اور آپ لبیک کہہ رہے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2927]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام بخاری نے صحیح میں یہ حدیث روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے عمرے کا احرام باندھا ہوا تھا اور اس سے خوشبو آ رہی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ اس خوشبو کو تین بار دھوئے۔ (صحيح البخاري، الحج، باب غسل الخلوق ثلاث مرات باب حديث: 1526)
اور یہ حدیث بھی روایت کی ہے جو سنن ابن ماجہ کے اس باب کی پہلی حدیث (صحيح البخاري، الحج، باب الطيب عند الحرام۔
۔
۔
۔
، حديث: 1539)
ان دونوں روایات میں بظاہر تعارض محسوس ہوتا ہے۔
ان کے درمیان تطبیق یہ دی گئی ہے کہ خوشبو دھونے کا واقعہ پہلے کا ہے اس کے بعد نبی ﷺ کے عمل سے یہ ثابت ہوا کہ احرام باندھتے وقت خوشبو کا استعمال جائز ہے چنانچہ معلوم ہوا کہ دھونے کے حکم والی حدیث 8ھ کا واقعہ ہے جو مقام جعزانه میں پیش آیا۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا نبیﷺ کو خوشبو لگانے کا واقعہ حجۃالوداع کا ہے جو10ھ میں ادا کیا گیا۔
علاوہ ازیں جس خوشبو کو دھونے کا حکم دیا گیا وہ خلوق تھی جس میں زعفران کی آمیزش ہوتی ہے۔
اور مرد کے لیے زعفران کی خوشبو استعمال کرنا احرام کے علاوہ بهى ممنوع ہے۔ (مفهوم فتح الباري: 3/498)
(3)
دس ذی الحجہ کو رمی جمرات اور سر منڈوانے یا بال چھوٹے کرانے کے بعد احرام کی پابندیاں اٹھ جاتی ہیں۔
صرف ازدواجی تعلقات والی پابندی باقی رہ جاتی ہے۔
اس لیے دن طواف کعبہ احرام کی چادروں کے بجائے عام سلے ہوئے لباس میں کیا جاتا ہے چنانچہ اس طواف سے پہلے خوشبو لگانا بھی جائز ہو جاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2927
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3042
´جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد آدمی کے لیے حلال ہو جانے والی چیزوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھتے وقت، اور احرام کھولتے وقت خوشبو لگائی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3042]
اردو حاشہ: دیکھیے فوائد حدیث نمبر 2927
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3042
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:270
270. حضرت ابراہیم بن محمد بن منتشر سے روایت ہے، وہ اپنے والد محمد بن منتشر سے بیان کرتے ہیں، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا اور ان سے حضرت ابن عمر ؓ کے اس قول کا بھی ذکر کیا کہ میں نے بات گوارا نہیں کرتا کہ احرام باندھوں اور خوشبو میرے جسم سے مہک رہی ہو۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگائی، پھر آپ اپنی تمام ازواج کے پاس گئے اور اس کے بعد احرام باندھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:270]
حدیث حاشیہ: 1۔
اس عنوان کے دو حصے ہیں:
۔
غسل کرنا، چونکہ طواف نساء جماع سے کنایہ ہے اور اس کے لوازمات سے فریضہ غسل ہے۔
۔
خوشبو کا اثر باقی رہنا، اس کا ثبوت حضرت عائشہ ؓ کے جواب سے ہے، انھوں نے حضرت ابن عمر ؓ بات رد کرتے ہوئے فرمایا۔
نیز دوسری حدیث میں مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھنا بھی عنوان کے اس دوسرے حصے کے مطابق ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث محرم کے بدن پرخوشبو کے اثرات باقی رہنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔
اگرخوشبو پہلے سےلگی ہوئی ہوتو حالت احرام کے خلاف نہیں اور نہ اس کی وجہ سے کفارہ ہی لازم آتا ہے۔
البتہ احرام کے بعد خوشبو کا استعمال درست نہیں۔
(فتح الباري: 495/1) 2۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم بخاری میں اس عنوان کا یہ مقصد بیان کیا ہے کہ غسل یا وضو میں اعضاء کو ملنا ضروری نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے جسم اطہر پر غسل کے بعد بھی خوشبو کا اثر باقی رہا۔
اگر آپ نے بدن کوملا ہوتا یا اس میں مبالغہ کیا ہوتا تو خوشبو یا اس کے اثرات کا باقی رہنا مشکل تھا۔
ہم شاہ صاحب کے بیان پر مزید اضافہ کرتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے غسل سے متعلقہ دومسائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔
۔
خوشبو کے استعمال کے بعد جب مجامعت کا عمل کیا تو بدن ناپاک ہوگیا اور بدن کی ناپاکی سے خوشبو کا متاثر ہونا بھی یقینی ہے، اب اگرغسل کے بعد ایسی خوشبو کا اثر باقی رہے تو شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟ امام صاحب نے بتا دیا کہ وہ خوشبو جو جنابت کے اثرسے متاثر تھی غسل کے بعد طاہر ہے اور غسل بھی معتبر ہے، نیز جنابت کی حالت میں جنابت سے متاثر شدہ خوشبو کا غسل کے بعد باقی رہنا مضر نہیں۔
۔
بدن پر خوشبو یا تیل کے استعمال کے بعد غسل کیا جائے تو ایسی حالت میں پانی جسم پر بہت کم نفوذ کرتا ہے، کیونکہ خوشبو یا تیل کی چکناہٹ جلد کی تہہ تک پانی پہنچانے میں بعض اوقات رکاوٹ بن جاتی ہے، اس قسم کے غسل کی کیا حیثیت ہے؟ اس عنوان سے معلوم ہوا کہ غسل صحیح ہے اور اس قسم کے خیالات شریعت کی نظر میں ناقابل التفات ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 270
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:271
271. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: گویا میں نبی ﷺ کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں اور آپ احرام باندھے ہوئے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:271]
حدیث حاشیہ: 1۔
اس عنوان کے دو حصے ہیں:
۔
غسل کرنا، چونکہ طواف نساء جماع سے کنایہ ہے اور اس کے لوازمات سے فریضہ غسل ہے۔
۔
خوشبو کا اثر باقی رہنا، اس کا ثبوت حضرت عائشہ ؓ کے جواب سے ہے، انھوں نے حضرت ابن عمر ؓ بات رد کرتے ہوئے فرمایا۔
نیز دوسری حدیث میں مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھنا بھی عنوان کے اس دوسرے حصے کے مطابق ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث محرم کے بدن پرخوشبو کے اثرات باقی رہنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔
اگرخوشبو پہلے سےلگی ہوئی ہوتو حالت احرام کے خلاف نہیں اور نہ اس کی وجہ سے کفارہ ہی لازم آتا ہے۔
البتہ احرام کے بعد خوشبو کا استعمال درست نہیں۔
(فتح الباري: 495/1) 2۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم بخاری میں اس عنوان کا یہ مقصد بیان کیا ہے کہ غسل یا وضو میں اعضاء کو ملنا ضروری نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے جسم اطہر پر غسل کے بعد بھی خوشبو کا اثر باقی رہا۔
اگر آپ نے بدن کوملا ہوتا یا اس میں مبالغہ کیا ہوتا تو خوشبو یا اس کے اثرات کا باقی رہنا مشکل تھا۔
ہم شاہ صاحب کے بیان پر مزید اضافہ کرتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے غسل سے متعلقہ دو مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔
۔
خوشبو کے استعمال کے بعد جب مجامعت کا عمل کیا تو بدن ناپاک ہوگیا اور بدن کی ناپاکی سے خوشبو کا متاثر ہونا بھی یقینی ہے، اب اگرغسل کے بعد ایسی خوشبو کا اثر باقی رہے تو شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟ امام صاحب نے بتادیا کہ وہ خوشبو جوجنابت کے اثرسے متاثرتھی غسل کے بعد طاہر ہے اور غسل بھی معتبر ہے، نیز جنابت کی حالت میں جنابت سے متاثر شدہ خوشبو کا غسل کے بعد باقی رہنا مضر نہیں۔
۔
بدن پر خوشبو یا تیل کے استعمال کے بعد غسل کیا جائے تو ایسی حالت میں پانی جسم پر بہت کم نفوذ کرتا ہے، کیونکہ خوشبو یا تیل کی چکناہٹ جلد کی تہہ تک پانی پہنچانے میں بعض اوقات رکاوٹ بن جاتی ہے، اس قسم کے غسل کی کیا حیثیت ہے؟ اس عنوان سے معلوم ہوا کہ غسل صحیح ہے اور اس قسم کے خیالات شریعت کی نظر میں ناقابل التفات ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 271
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1539
1539. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کو احرام باندھنتے وقت اور طواف زیارت سے پہلے احرام کھولتے وقت خوشبو لگا دیتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1539]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم آدمی احرام باندھنے سے پہلے خوشبو لگا سکتا ہے اگرچہ اس کے اثرات احرام کے بعد باقی رہیں، البتہ احرام کے بعد خوشبو لگانا صحیح نہیں۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی بعض روایات میں ہے کہ میں نے تین دن کے بعد اس خوشبو کے اثرات دیکھے تھے۔
اس روایت سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام سے پہلے جو خوشبو استعمال کی تھی، احرام باندھنے سے قبل آپ نے جو غسل کیا اس کے اثرات اس غسل سے ختم ہو گئے تھے۔
بعض روایات میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
ہم احرام کے وقت اپنے چہرے پر خوشبودار مرکب خوشبو کا ضماد کر لیا کرتی تھیں، جب پسینہ آتا تو وہ ہمارے چہرے پر بہنے لگتا۔
رسول اللہ ﷺ یہ منظر دیکھتے لیکن ہمیں اس سے منع نہیں کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1830)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر خوشبو کے علاوہ اس کا اپنا وجود بھی باقی رہے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 503/3)
واللہ أعلم۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دسویں تاریخ کو جب جمرہ عقبہ کی رمی کر لی جائے تو احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں، صرف عورت کے پاس جانے کی اجازت نہیں ہوتی، یہ پابندی بھی طواف زیارت کے بعد ختم ہو جاتی ہے، نیز ان روایات میں احرام سے پہلے صرف خوشبو لگانے کا بیان ہے جبکہ امام بخاری ؒ نے کنگھی کرنے اور تیل لگانے کا ذکر بھی کیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے ان چیزوں کو خوشبو پر قیاس نہیں کیا بلکہ ایک روایت کی بنیاد پر ایسا کیا ہے، وہ روایت یہ ہے:
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر مدینہ منورہ سے بالوں کو تیل لگا کر اور کنگھی کر کے روانہ ہوئے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1545)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1539
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5918
5918. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا: گویا میں اب بھی نبی ﷺ کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں جبکہ آپ احرام کی حالت میں تھے۔ حضرت عبداللہ بن رجاء نے (مفارق کے بجائے) مفرق النبی ﷺ کے الفاظ کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5918]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے پہلے خوشبو لگاتے تھے جس کے اثرات احرام کے بعد بھی نظر آتے تھے جیسا کہ حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بیان ہوا ہے، البتہ دوران احرام میں خوشبو استعمال کرنا جائز نہیں۔
(2)
مفرق، سر کے درمیان سے بالوں کے دائیں بائیں دو حصے کرنے کو کہتے ہیں۔
سر کا ہر حصہ گویا مفرق ہے، اس لیے بعض اوقات اسے مفارق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر کے درمیان سے مانگ نکالتے تھے، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں میں مانگ نکالنے لگتی تو آپ کے سر کے درمیان سے نکالتی اور آپ کی پیشانی کے بالوں کو آپ کی آنکھوں کے سامنے لٹکا کر پھر انہیں آدھو آدھ کر دیتی تھی۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4189)
اس حدیث کی بنا پر مانگ اپنے سر کے درمیان ہونی چاہیے، دائیں بائیں سے نہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5918
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5922
5922. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے اپنے ہاتھوں سے نبی ﷺ کو احرام باندھتے وقت اور طواف زیارت سے پہلے منیٰ میں خوشبو لگائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5922]
حدیث حاشیہ:
(1)
منیٰ میں رمی، ذبح اور بال منڈوانے کے بعد محرم آدمی کے لیے بیوی کے علاوہ ہر چیز حلال ہو جاتی ہے، اس لیے طواف زیارت سے پہلے وہ خوشبو وغیرہ لگا سکتا ہے، اسی طرح احرام باندھنے سے پہلے بھی خوشبو لگائی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے اثرات احرام کے بعد بھی نمایاں ہوں۔
(2)
ایک حدیث میں مردوں اور عورتوں کی خوشبو میں فرق بیان کیا گیا ہے کہ عورتوں کی خوشبو کا رنگ ظاہر ہوتا ہے جبکہ اس کی مہک مخفی ہوتی ہے، اس کے برعکس مردوں کی خوشبو میں رنگ مخفی ہوتا ہے لیکن اس کی مہک نمایاں ہوتی ہے۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مردوں کی خوشبو پہلے اپنے ہاتھوں کو لگائی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور داڑھی میں لگائی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مردوں کو خوشبو لگا کر عورت کو باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
اگر باہر جانے کی مجبوری ہو تو اسے دھو کر باہر جائے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 449/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5922
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5923
5923. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو سب سے عمدہ خوشبو لگایا کرتی تھی یہاں تک کہ خوشبو کی چمک آپ کی ڈاڑھی اور سر میں دیکھتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5923]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد کے خوشبو لگانے کی جگہیں عورتوں سے مختلف ہیں کیونکہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو خوشبو نہیں لگاتی تھیں کیونکہ چہرے پر خوشبو لگانا عورتوں کے لیے ہے، اس لیے کہ اس سے خوبصورتی اور زینت میں اضافہ ہوتا ہے جو عورتوں کے لیے مطلوب ہے لیکن مردوں کو چہرے پر خوشبو لگانا ممنوع ہے کیونکہ ایسا کرنے سے عورتوں کی مشابہت لازم آتی ہے۔
بہرحال عورتیں ہر قسم کی زینت کر سکتی ہیں بشرطیکہ خلقت میں تبدیلی نہ آئے۔
(فتح الباري: 449/10) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو بہت پسند تھی کیونکہ عالم بالا سے آپ کا تعلق رہتا تھا اور اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے خاص طور پر حضرت جبرئیل علیہ السلام بکثرت آپ کے ہاں حاضر ہوتے رہتے تھے، اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف ستھرا اور معطر رہنا ضروری تھا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5923
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5928
5928. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نبی ﷺ کو احرام باندھتے وقت دستیاب خوشبو میں اچھی سے اچھی خوشبو لگاتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5928]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
میں حجۃ الوداع کے موقع پر احرام باندھتے اور کھولتے وقت ذریرہ خوشبو لگاتی تھی۔
یہ خوشبو چند خوشبوؤں کو ملا کر تیار کی جاتی اور یہ عمدہ خوشبو ہوتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عمدہ اور بہترین خوشبو کا انتخاب کرتی تھیں۔
یہ ان کے حسن ذوق کی علامت ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بہترین خوشبو کی موجودگی میں دوسری گھٹیا خوشبو استعمال نہ کی جائے بلکہ عمدہ خوشبو کا استعمال ہی مستحب ہے۔
(فتح الباري: 453/10)
ایک حدیث میں ہے کہ بہترین خوشبو کستوری ہے۔
(صحیح مسلم، الألفاظ من الأدب وغیرھا، حدیث: 5878 (2252)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5928
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5930
5930. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع کے موقع پر احرام باندھتے اور کھولتے وقت اپنے ہاتھوں سے ذریرہ نامی (عمدہ) خوشبو لگائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5930]
حدیث حاشیہ:
یہ مرکب خوشبو کی عمدہ قسم ہے جس میں کستوری بھی ہوتی تھی جیسا کہ قبل ازیں حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا احرام باندھنے سے پہلے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور داڑھی میں لگا دیتی تھیں اور جب منیٰ میں رمی سے فارغ ہوتے تو طواف افاضہ سے پہلے آپ کو خوشبو لگاتیں۔
ان تمام باتوں کی وضاحت قبل ازیں پیش کردہ احادیث میں کی گئی ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5930