Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الدِّيَاتِ
کتاب: دیتوں کا بیان
27. باب فِي جِنَايَةِ الْعَبْدِ يَكُونُ لِلْفُقَرَاءِ
باب: فقیر کا غلام کوئی جرم کرے تو اس کی سزا کا حکم۔
حدیث نمبر: 4590
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ:" أَنّ غُلَامًا لِأُنَاسٍ فُقَرَاءَ قَطَعَ أُذُنَ غُلَامٍ لِأُنَاسٍ أَغْنِيَاءَ، فَأَتَى أَهْلُهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا أُنَاسٌ فُقَرَاءُ، فَلَمْ يَجْعَلْ عَلَيْهِ شَيْئًا".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فقیر لوگوں کے ایک غلام نے کچھ مالدار لوگوں کے ایک غلام کا کان کاٹ لیا، تو جس غلام نے کان کاٹا تھا اس کے مالکان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! ہم فقیر لوگ ہیں، تو آپ نے ان پر کوئی دیت نہیں ٹھہرائی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/القسامة 15، 16 (4755)، سنن الدارمی/الدیات 3 (2399)، (تحفة الأشراف: 10863) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
نسائي (4755)
قتادة عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 162

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4590 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4590  
فوائد ومسائل:
1: بعض محققین کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے۔

2: اس حدیث میں غلام کا ایک ترجمہ معروف معنی میں ہے کہ وہ عبد مملوک تھے، چونکہ یہ معاملہ مملوکوں کے مابین تھا اور قصور کے مالک فقیر بھی تھے، اس لئے ان پر کچھ نہ ڈالا گیا اور دوسرا ترجمہ نو عمر لڑکے بھی کیا گیا ہے، یعنی وہ آزاد تھے، مگر ان کے لڑکپن، خطا اور قصور کے ولی فقیر ہونے کی وجہ سے ان پر کچھ نہ ڈالا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4590   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1000  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فقراء لوگوں کے ایک غلام نے امراء لوگوں کے غلام کا کان کاٹ لیا تو یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے کوئی چیز مقرر نہ فرمائی۔ اسے احمد اور تینوں نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1000»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الديات، باب جناية العبد يكون للفقراء، حديث:4590، والنسائي، القسامة، حديث:4755، وأحمد:4 /438، والترمذي: لم أجده.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور دلائل کی رو سے انھی کی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۳۳ /۱۵۷‘ ۱۵۸‘ وصحیح سنن أبي داود للألباني‘ رقم:۴۵۹۰)2.اس حدیث کے مفہوم میں اختلاف ہے۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے سُقُوطُ الْقَوَدِ بَیْنَ الْمَمَالِیکِ فِیمَا دُونَ النَّفْسِ کا عنوان قائم کیا ہے کہ غلاموں کے مابین قتل کے سوا کسی جرم کا قصاص نہیں‘ گویا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے حدیث میں موجود لفظ غلام سے غلام اور مملوک مراد لیا ہے جبکہ علامہ خطابی رحمہ اللہ نے غلام کے معنی لڑکا لیتے ہوئے کہا ہے: اس کے معنی یہ ہیں کہ جرم کا مرتکب لڑکا آزاد تھا اور اس سے یہ جرم خَطَأً سرزد ہوا تھا اور اس کے ورثاء فقیر لوگ تھے۔
اور قاعدہ یہ ہے کہ ورثاء اپنی وسعت و حیثیت کے مطابق دیت ادا کریں۔
اگر وہ فقیر اور نادار ہوں تو ان کے ذمے کچھ نہیں۔
رہا غلام لڑکا! تو وہ اگر کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ خود اس کا ذمہ دار ہوگا۔
اکثر اہل علم کی یہی رائے ہے۔
(ملخصًا) منتقی الأخبار میں امام مجدالدین ابن تیمیہ کا قول ہے: مذکورہ بالا حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ قاتل کے ورثاء پر دیت کی ادائیگی کی جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ وہ ان کے فقر کی وجہ سے ساقط ہو جائے گی اور قاتل بھی اس سے بری ہوگا۔
(منتقی الأخبار)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1000   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4755  
´قتل سے کم جرم میں غلاموں سے قصاص نہ لینے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غریب لوگوں کے ایک غلام نے امیر لوگوں کے ایک غلام کا کان کاٹ لیا، وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے انہیں کچھ نہ دلایا۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4755]
اردو حاشہ:
(1) مصنف رحمہ اللہ نے یہاں غلام مملوک کے معنیٰ میں لیا ہے جب کہ بعض محققین نے یہاں غلام کے معنیٰ بچہ کیے ہیں۔ عربی میں لفظ غلام دونوں معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ظاہر ہے بچے پر قصاص نہیں۔ البتہ اگر غلام ہی مراد ہو تو یہ خطا کا مقدمہ ہوگا، یعنی اس سے خطأَ کان کاٹا گیا اور خطا کی صورت میں بھی قصاص نہیں ہوتا۔ دونوں صورتوں میں اس کے اولیاء پر دیت آنی تھی لیکن وہ خود کنگال تھے۔ ان سے کیا وصول ہونا تھا؟ لہٰذا آپ نے صلح کروا دی۔
(2) محقق کتاب نے اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین اس روایت کو صحیح الاسناد قرار دیتے ہیں اور دلائل کی رو سے ان کی رائے ہی صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي للأتبوبي: 36/ 54- 57)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4755