Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب قيام الليل وتطوع النهار
کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
41. بَابُ : كَيْفَ الْوِتْرُ بِخَمْسٍ وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى الْحَكَمِ فِي حَدِيثِ الْوِتْرِ
باب: پانچ رکعت وتر کیسے پڑھی جائے؟ اور وتر کی حدیث کے سلسلے میں حکم سے روایت کرنے والے راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 1717
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ يَزِيدَ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ الْحُسَيْنِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، قال:" الْوِتْرُ سَبْعٌ فَلَا أَقَلَّ مِنْ خَمْسٍ" فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ , فَقَالَ: عَمَّنْ ذَكَرَهُ؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي قَالَ الْحَكَمُ: فَحَجَجْتُ فَلَقِيتُ مِقْسَمًا , فَقُلْتُ لَهُ: عَمَّنْ؟ قَالَ: عَنِ الثِّقَةِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَنْ مَيْمُونَةَ.
سفیان بن الحسین حکم سے روایت کرتے ہیں، اور وہ مقسم سے، مقسم کہتے ہیں کہ وتر سات رکعت ہے اور پانچ سے کم نہیں، میں نے یہ بات ابراہیم سے ذکر کی، تو انہوں نے کہا: انہوں نے اسے کس کے واسطہ سے ذکر کیا ہے؟ تو میں نے کہا: مجھے نہیں معلوم، حکم کہتے ہیں: پھر میں حج کو گیا تو میں نے مقسم سے ملاقات کی، اور ان سے پوچھا کہ یہ بات آپ نے کس سے سنی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک ثقہ شخص سے ۱؎، اور اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا اور میمونہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 17818)، مسند احمد 6/335 (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»

وضاحت: ۱؎: غالباً ثقہ شخص سے مراد ابن عباس رضی اللہ عنہم ہیں کیونکہ مقسم برابر انہیں سے چمٹے رہتے تھے، اور انہوں نے ولاء کی نسبت بھی انہیں کی طرف کی ہے، یا عن عائشہ وعن میمونہ عن الثقۃ سے بدل ہے ایسی صورت میں ترجمہ ہو گا ثقہ سے سنی ہے یعنی عائشہ اور میمونہ سے سنی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، الثقة: لم أعرفه. ومقطوع الحكم بن عتيبة صحيح. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 334

سنن نسائی کی حدیث نمبر 1717 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1717  
1717۔ اردو حاشیہ: حضرت مقسم نے دراسل حضرت عائشہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کی روایات سے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے نہ کہ ان سے صراحتاً منقول ہے۔ حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات تین اور ایک وتر کی پیچھے گزر چکی ہیں، نیز یہ کسی بھی فقیہ یا محدث کا مسلک نہیں۔ علاوہ ازیں یہ روایت سنداً ضعیف بھی ہے۔ مزید دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 18؍88۔ 91]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1717