سلسله احاديث صحيحه
المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات -- ابتدائے (مخلوقات)، انبیا و رسل، عجائبات خلائق

بنو اسرائیل کے قرضدار اور قرض خواہ کا ایک عجیب واقعہ، صدق دل سے اللہ تعالیٰ کو کفیل بنانے والوں کا انجام
حدیث نمبر: 3864
-" إن رجلا من بني إسرائيل سأل رجلا أن يسلفه ألف دينار، فقال له: ائتني بشهداء أشهدهم عليك، فقال: كفى بالله شهيدا. قال: فائتني بكفيل. قال: كفى بالله كفيلا. قال: صدقت. قال: فدفع إليه ألف دينار إلى أجل مسمى فخرج في البحر وقضى حاجته وجاء الأجل الذي أجل له، فطلب مركبا فلم يجده فأخذ خشبة فنقرها فأدخل فيها ألف دينار، وكتب صحيفة إلى صاحبها ثم زجج موضعها، ثم أتى بها البحر فقال: اللهم إنك قد علمت أني استسلفت من فلان ألف دينار فسألني شهودا وسألني كفيلا، فقلت: كفى بالله كفيلا فرضي بك وقد جهدت أن أجد مركبا أبعث إليه بحقه فلم أجد وإني استودعتكها، فرمى بها في البحر! فخرج الرجل الذي كان أسلفه ينظر لعل مركبا يقدم بماله فإذا هو بالخشبة التي فيها المال، فأخذها حطبا فلما كسرها وجد المال والصحيفة فأخذها، فلما قدم الرجل قال له: إني لم أجد مركبا يخرج، فقال: إن الله قد أدى عنك الذي بعثت به في الخشبة، فانصرف بالألف راشدا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنواسرائیل کے ایک آدمی نے کسی سے ایک ہزار دینار ادھار لینے کا سوال کیا۔ اس نے کہا: کوئی گواہ لاؤ، جسے میں تجھ پر گواہ بنا سکوں۔ اس نے کہا: اللہ ہی بطور گواہ کافی ہے۔ اس نے کہا: تو پھر کوئی کفیل لاؤ۔ اس نے کہا: اللہ ہی بطور کفیل کافی ہے۔ اس نے کہا: تو نے سچ کہا ہے۔ پس اس نے اسے ایک مقررہ وقت تک ایک ہزار دینار قرضہ دے دیا۔ وہ آدمی سمندر کی طرف روانہ ہو گیا اور اپنی ضرورت پوری کی۔ جب مقررہ وقت آ پہنچا تو اس نے کوئی سواری تلاش کی، لیکن نہ مل سکی۔ سو اس نے ایک لکڑی لی اور اس میں کھدائی کر کے ایک ہزار دینار رکھ دیا اور ان کے مالک کی طرف ایک خط لکھا اور (‏‏‏‏لوہے وغیرہ کے ذریعے اس سوراخ کو) بند کر دیا، پھر وہ لکڑی لے کر سمندر کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں آدمی سے ایک ہزار دینار اھار لیا تھا، جب اس نے مجھ سے شاہد اور کفیل کا مطالبہ کیا تو میں نے کہا تھا کہ اللہ ہی بطور کفیل کافی ہے۔ وہ (‏‏‏‏تیری کفالت پر) راضی ہو گیا تھا اور اب میں نے سواری تلاش تو کی تاکہ اس کا حق اس تک پہنچا دوں، لیکن سواری نہیں مل رہی۔ اب میں اس مال کو تیرے سپرد کرتا ہوں۔ پھر اس نے وہ لکڑی سمندر میں پھینک دی۔ ا‏‏‏‏دھر ادھار دینے والا آدمی اس غرض سے نکلا کہ شاید (‏‏‏‏کوئی سوار) کسی سواری پر سوار ہو کر (‏‏‏‏میرا قرضہ چکانے کے لیے) میرا مال لے کر آ رہا ہو۔ اچانک (‏‏‏‏اسے سمندر کے کنارے پر) ایک لکڑی نظر آئی جس میں اس کا مال تھا۔ اس نے ایندھن کا کام لینے کے لیے وہ لکڑی اٹھا لی، جب اسے توڑا تو اسے مال اور خط موصول ہوا، اس نے وہ لے لیا۔ بعد میں قرضہ لینے والا آدمی (‏‏‏‏ایک ہزار دینار لے کر) خود بھی پہنچ گیا اور کہا: مجھے کوئی سواری نہیں مل سکی تھی (‏‏‏‏لہٰذا اب یہ قرضہ چکانے آیا ہوں)۔ قرضہ دینے والے نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھ تک وہ چیزیں پہنچا دی، جو تو نے لکڑی میں بھیجی تھی۔ سو وہ کامیاب ہو کر واپس پلٹ گیا۔ ‏‏‏‏