صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابٌ:
باب:۔۔۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: ذُو مِرَّةٍ: ذُو قُوَّةٍ، قَابَ قَوْسَيْنِ: حَيْثُ الْوَتَرُ مِنَ الْقَوْسِ، ضِيزَى: عَوْجَاءُ، وَأَكْدَى: قَطَعَ عَطَاءَهُ، رَبُّ الشِّعْرَى: هُوَ مِرْزَمُ الْجَوْزَاءِ، الَّذِي وَفَّى: وَفَّى مَا فُرِضَ عَلَيْهِ، أَزِفَتِ الْآزِفَةُ: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ، سَامِدُونَ: الْبَرْطَمَةُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: يَتَغَنَّوْنَ بِالْحِمْيَرِيَّةِ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: أَفَتُمَارُونَهُ: أَفَتُجَادِلُونَهُ وَمَنْ قَرَأَ أَفَتَمْرُونَهُ يَعْنِي أَفَتَجْحَدُونَهُ، وَقَالَ: مَا زَاغَ الْبَصَرُ: بَصَرُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا طَغَى: وَمَا جَاوَزَ مَا رَأَى، فَتَمَارَوْا: كَذَّبُوا، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِذَا هَوَى: غَابَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَغْنَى وَأَقْنَى: أَعْطَى فَأَرْضَى.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا کہ «ذو مرة‏» کے معنی زور دار، زبردست (یعنی جبرائیل علیہ السلام)۔ «قاب قوسين‏» یعنی کمان کے دونوں کنارے جہاں پر چلہ لگا رہتا ہے۔ «ضيزى‏» کے معنی ٹیڑھی، غلط تقسیم۔ «وأكدى‏» اور دینا موقوف کر دیا۔ «الشعرى‏» وہ ستارہ ہے جسے «مرزم الجوزاء» بھی کہتے ہیں۔ «الذي وفى‏» یعنی اللہ نے جو ان پر فرض کیا تھا وہ بجا لائے۔ «أزفت الآزفة‏» قیامت قریب آ گئی۔ «سامدون‏» کے معنی کھیل کرتے ہو۔ «برطمة‏.‏» ایک کھیل کا نام ہے۔ عکرمہ نے کہا «حميري» زبان میں گانے کے معنی میں ہے اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا کہ «أفتمارونه‏» کا معنی کیا تم اس سے جھگڑتے ہو۔ بعضوں نے یوں پڑھا ہے «أفتمرونه» یعنی کیا تم اس کام کا انکار کرتے ہو۔ «ما زاغ البصر‏» سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک مراد ہے۔ «وما طغى‏» یعنی جتنا حکم تھا اتنا ہی دیکھا (اس سے زیادہ نہیں بڑھے)۔ «فتماروا‏» سورۃ القمر میں ہے یعنی جھٹلایا۔ (امام حسن بصری نے کہا «إذا هوى‏‏» یعنی غائب ہوا اور ڈوب گیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أغنى وأقنى‏» کا معنی یہ ہے کہ دیا اور راضی کیا۔
حدیث نمبر: 4855
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: يَا أُمَّتَاهْ، هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَفَّ شَعَرِي مِمَّا قُلْتَ أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلَاثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ، فَقَدْ كَذَبَ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ سورة الأنعام آية 103 وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ سورة الشورى آية 51، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا سورة لقمان آية 34، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ سورة المائدة آية 67 الْآيَةَ، وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فِي صُورَتِهِ مَرَّتَيْنِ".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے وکیع نے، ان سے اسمٰعیل بن ابی خالد نے، ان سے عامر نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اے ایمان والوں کی ماں! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ایسی بات کہی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو؟ جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے جو شخص یہ کہتا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے آیت «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير‏» سے لے کر «من وراء حجاب‏» تک کی تلاوت کی اور کہا کہ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے بات کرے سوا اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ بھی جھوٹا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے آیت «وما تدري نفس ماذا تكسب غدا‏» یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔ کی تلاوت فرمائی۔ اور جو شخص تم میں سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك‏» یعنی اے رسول! پہنچا دیجئیے وہ سب کچھ جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3234  
´شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا تو اس نے بڑی جھوٹی بات زبان سے نکالی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِينَ...: 3234]

تخريج الحديث:
[112۔ البخاري فى: 59 كتاب بدي الخلق: 7 باب إذا قال أحدكم آمين۔۔۔۔ 3234]

فھم الحدیث:
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شب معراج اللہ کو دیکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو نور ہے (یا نور کے پردے میں ہے) میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟ [مسلم: كتاب الايمان 178]
سابق مفتی اعظم سعودیہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دینا میں بیداری کی حالت میں کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ [مجموع فتاويٰ ابن باز 27/ 118]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 112   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3068  
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا: (۱) جس نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائی۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير» کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے (یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3068]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بے شک محمد نے اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (النجم: 13)

2؎:
بے شک انہوں نے اسے آسمان کے روشن کنارے پر دیکھا (التکویر: 23)

3؎:
جو چیز اللہ کی جانب سے تم پر اتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو (النساء: 67)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3068   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4855  
4855. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے عرض کی: اے امی جان! کیا حضرت محمد ﷺ نے (شب معراج میں) اپنے رب کو دیکھا تھا؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: تم نے ایسی بات کہہ دی ہے جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کیا تم ان تین باتوں سے بے خبر ہو؟ جو شخص بھی تم سے یہ باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے؟ جو شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے (شب معراج میں) اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: اسے نگاہیں نہیں پا سکتی لیکن وہ نگاہوں کا احاطہ کرتا ہے اور وہ نہایت باریک بین، باخبر ہے۔ نیز یہ آیت بھی تلاوت کی: کسی بشر کے لائق نہیں کہ اللہ تعالٰی اس سے کلام کرے مگر وحی یا پردے کے پیچھے سے۔۔ اور جو شخص تم سے یہ بات کہے کہ حضرت محمد ﷺ کل کی بات جانتے تھے، وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4855]
حدیث حاشیہ:
اس تفصیل سے اسی کو ترجیح حاصل ہوئی کہ آپ نے شب معراج میں ان آنکھوں سے اللہ کو نہیں دیکھا۔
واللہ اعلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نفی کرنا حیات دنیاوی سے متعلق ہے آخرت میں مومنوں کا دیدارالٰہی ضرور ہوگا اس کا انکار مراد نہیں ہے۔
آیت میں عام طو ر پر ہر نفس مراد ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی غیب دانی کی نفی ثابت ہوتی ہے دوسری آیت میں بصراحت مذکور ہے ﴿قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ﴾ (النمل: 65)
اب غور طلب چیز یہ ہے جب کل کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی حاصل نہیں ہے تو دوسرے ولی یا بزرگ یا پیر فقیر وشہید کس گنتی اورشمار میں ہیں۔
یہ بات الگ ہے کہ اللہ پاک اپنے کسی بندے کو وحی یا الہام کے ذریعہ سے کل کی کسی بات پر آگاہ فرما دے اس سے اس بندے کا عالم الغیب ہونا ثابت نہیں ہو سکتا جو اہل بدعت خود ساختہ مرشدوں کو غیب داں جانتے ہیں ان کے مشرک ہونے میں کوئی شک نہیں ہے وہ اشراک فی العلم کے مرتکب ہیں اور اللہ کے ہاں ان کا نام مشرکوں کے دفتر میں لکھا گیا خواہ وہ دنیا میں کتنے ہی اسلام کا دعویٰ کریں اور اپنے آپ کو مسلمان ومومن سمجھیں قرآن پاک کی ایک آیت میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے ﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ﴾ (یوسف: 106)
یعنی کتنے ایمان کے دعویدار اللہ کے نزدیک مشرک ہیں خود فقہائے احناف نے صراحت کی ہے کہ غیر اللہ کو غیب داں جاننا کفر ہے۔
اسی طرح جو کوئی اللہ کے ساتھ اس کے رسول کو بھی غیب داں جان کر گواہ بنا دے وہ بھی مشرک ہو جاتا ہے بہر حال ایسے مشرکانہ عقائد سے ہر موحد مسلمان کو بالکل دور رہنا چاہئے۔
وباللہ التوفیق۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4855   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4855  
4855. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے عرض کی: اے امی جان! کیا حضرت محمد ﷺ نے (شب معراج میں) اپنے رب کو دیکھا تھا؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: تم نے ایسی بات کہہ دی ہے جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کیا تم ان تین باتوں سے بے خبر ہو؟ جو شخص بھی تم سے یہ باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے؟ جو شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے (شب معراج میں) اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: اسے نگاہیں نہیں پا سکتی لیکن وہ نگاہوں کا احاطہ کرتا ہے اور وہ نہایت باریک بین، باخبر ہے۔ نیز یہ آیت بھی تلاوت کی: کسی بشر کے لائق نہیں کہ اللہ تعالٰی اس سے کلام کرے مگر وحی یا پردے کے پیچھے سے۔۔ اور جو شخص تم سے یہ بات کہے کہ حضرت محمد ﷺ کل کی بات جانتے تھے، وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4855]
حدیث حاشیہ:

احادیث میں اس حدیث کا سبب بیان ہوا ہے کہ کعب احبار نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرفہ میں ملاقات کی اور ان سے کچھ سوالات کیے پھر اتنے زور سے اللہ اکبر کہا کہ پہاڑ گونج اٹھا پھر اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رؤیت اورگفتگو کو تقسیم کردیا ہے کیونکہ اپنے کلام سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شرف یاب کیا جبکہ دیدار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مشرف ہوئے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دو مرتبہ اپنے رب سے کلام کیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اپنے رب کو دیکھا۔
حضرت مسروق کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گیا اور اس گفتگو کا ذکر کیا اور پوچھا کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وہی جواب دیا جو حدیث میں مذکورہے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3278)

بہر حال حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس بات کی پرزور تردید کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا اس انکار کی بنیاد صرف آیات سے استنباط ہی پر نہیں بلکہ مرفوع حدیث ہے چنانچہ جب مسروق نے اس سلسلے میں حسب ذیل دو آیات کا حوالہ دیا۔
﴿وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ﴾ (التکویر81۔
23)

اور ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ﴾ (النجم: 53۔
13)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
میں نے اس امت میں سب سے پہلے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
اس سے مراد حضرت جبرئیل ہیں۔
میں نے انھیں اصلی صورت میں صرف دو مرتبہ دیکھا ہے میں نے انھیں آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا جبکہ ان کی جسامت نے زمین نے زمین وآسمان کے کناروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔
اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان دو آیات کا حوالہ دیا جو حدیث بخاری میں موجود ہیں۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 439(177)
ایک روایت میں صراحت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو اپنے دل سے دیکھا تھا۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 436(176)
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رؤیت بسری یعنی آنکھ سے دیکھنے کا انکار کرتی ہیں جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اقرار رؤیت قلبی یعنی دل سے دیکھنے سے متعلق ہے ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے۔

یاد رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس عالم رنگ و بو میں رؤیت باری تعالیٰ کا انکار کرتی ہیں البتہ آخرت میں اہل ایمان دیدار الٰہی سے ضرور شرف یاب ہوں گے جیسا کہ قرآنی آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4855