30. بَابُ غَسْلِ الرِّجْلَيْنِ فِي النَّعْلَيْنِ وَلاَ يَمْسَحُ عَلَى النَّعْلَيْنِ:
30. باب: جوتوں کے اندر پاؤں دھونا چاہیے اور جوتوں پر مسح نہ کرنا چاہیے۔
(30) Chapter. Washing the feet, when one is wearing shoes; and it is not sufficient for one to pass a wet hand over the shoes (but one should take off the shoes and wash one’s feet).
Narrated `Ubaid Ibn Juraij: I asked `Abdullah bin `Umar, "O Abu `Abdur-Rahman! I saw you doing four things which I never saw being done by anyone of you companions?" `Abdullah bin `Umar said, "What are those, O Ibn Juraij?" I said, "I never saw you touching any corner of the Ka`ba except these (two) facing south (Yemen) and I saw you wearing shoes made of tanned leather and dyeing your hair with Hinna (a kind of red dye). I also noticed that whenever you were in Mecca, the people assume Ihram on seeing the new moon crescent (1st of Dhul-Hijja) while you did not assume the Ihlal (Ihram) -(Ihram is also called Ihlal which means 'Loud calling' because a Muhrim has to recite Talbiya aloud when assuming the state of Ihram) - till the 8th of Dhul-Hijja (Day of Tarwiya). `Abdullah replied, "Regarding the corners of Ka`ba, I never saw Allah's Apostle touching except those facing south (Yemen) and regarding the tanned leather shoes, no doubt I saw Allah's Apostle wearing non-hairy shoes and he used to perform ablution while wearing the shoes (i.e. wash his feet and then put on the shoes). So I love to wear similar shoes. And about the dyeing of hair with Hinna; no doubt I saw Allah's Apostle dyeing his hair with it and that is why I like to dye (my hair with it). Regarding Ihlal, I did not see Allah's Apostle assuming Ihlal till he set out for Hajj (on the 8th of Dhul-Hijja).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 167
● صحيح البخاري | 5851 | عبد الله بن عمر | لم أر رسول الله يمس إلا اليمانيين أما النعال السبتية فإني رأيت رسول الله يلبس النعال التي ليس فيها شعر يتوضأ فيها أما الصفرة فإني رأيت رسول الله يصبغ بها |
● صحيح البخاري | 1609 | عبد الله بن عمر | لم أر النبي يستلم من البيت إلا الركنين اليمانيين |
● صحيح البخاري | 166 | عبد الله بن عمر | لم أر رسول الله يمس إلا اليمانيين يلبس النعل التي ليس فيها شعر يتوضأ فيها أما الصفرة فإني رأيت رسول الله يصبغ بها فأنا أحب أن أصبغ بها |
● صحيح مسلم | 3061 | عبد الله بن عمر | لم أر رسول الله يمسح من البيت إلا الركنين اليمانيين |
● صحيح مسلم | 3064 | عبد الله بن عمر | ما تركت استلام هذين الركنين اليماني والحجر مذ رأيت رسول الله يستلمهما |
● صحيح مسلم | 2818 | عبد الله بن عمر | لم أر رسول الله يمس إلا اليمانيين أما النعال السبتية فإني رأيت رسول الله يلبس النعال التي ليس فيها شعر يتوضأ أما الصفرة فإني رأيت رسول الله يصبغ بها |
● صحيح مسلم | 3062 | عبد الله بن عمر | لم يكن رسول الله يستلم من أركان البيت إلا الركن الأسود والذي يليه |
● صحيح مسلم | 3063 | عبد الله بن عمر | لا يستلم إلا الحجر والركن اليماني |
● سنن أبي داود | 1876 | عبد الله بن عمر | لا يدع أن يستلم الركن اليماني والحجر في كل طوفة |
● سنن أبي داود | 1874 | عبد الله بن عمر | يمسح من البيت إلا الركنين اليمانيين |
● سنن أبي داود | 1772 | عبد الله بن عمر | لم أر رسول الله يمس إلا اليمانيين أما النعال السبتية فإني رأيت رسول الله يلبس النعال التي ليس فيها شعر يتوضأ فيها أما الصفرة فإني رأيت رسول الله يصبغ بها |
● سنن النسائى الصغرى | 2950 | عبد الله بن عمر | يستلم الركن اليماني والحجر في كل طواف |
● سنن النسائى الصغرى | 2945 | عبد الله بن عمر | يستلم الركن الأسود أول ما يطوف يخب ثلاثة أطواف من السبع |
● سنن النسائى الصغرى | 2952 | عبد الله بن عمر | يمسح من البيت إلا الركنين اليمانيين |
● سنن النسائى الصغرى | 2953 | عبد الله بن عمر | لم أر رسول الله يستلم إلا هذين الركنين |
● سنن النسائى الصغرى | 2954 | عبد الله بن عمر | يستلم من أركان البيت إلا الركن الأسود والذي يليه |
● سنن النسائى الصغرى | 2951 | عبد الله بن عمر | لا يستلم إلا الحجر والركن اليماني |
● سنن ابن ماجه | 2946 | عبد الله بن عمر | لم يكن رسول الله يستلم من أركان البيت إلا الركن الأسود والذي يليه |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 631 | عبد الله بن عمر | يصبغ بها، فانا احب ان اصبغ بها، واما الإهلال فإني |
● مسندالحميدي | 666 | عبد الله بن عمر | رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يهل حتى تنبعث به راحلته، ورأيته يلبس هذه النعال السبتية ويتوضأ فيها، ورأيته لا يستلم من هذا البيت إلا هذين الركنين، ورأيته يصفر لحيته |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 631
´سنت سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی محبت`
«. . . 418- وعن سعيد بن أبى سعيد عن عبيد بن جريج أنه قال لعبد الله بن عمر: يا أبا عبد الرحمن، رأيتك تصنع أربعا لم أر أحدا من أصحابك يصنعها، قال: وما هي يا ابن جريج؟ قال: رأيتك لا تمس من الأركان إلا اليمانيين، ورأيتك تلبس النعال السبتية، ورأيتك تصبغ بالصفرة، ورأيتك إذا كنت بمكة أهل الناس إذا رأوا الهلال ولم تهل أنت حتى كان يوم التروية، قال عبد الله بن عمر: أما الأركان فإني لم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم يمس من الأركان إلا اليمانيين، وأما النعال السبتية فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس النعال التى ليس فيها شعر ويتوضأ فيها، فأنا أحب أن ألبسها، وأما الصفرة فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبغ بها، فأنا أحب أن أصبغ بها، وأما الإهلال فإني لم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل حتى تنبعث به راحلته. . . .»
”. . . عبید بن جریج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! میں نے اپ کو چار ایسی چیزیں کرتے ہوئے دیکھا ہے جو کہ آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی نہیں کرتا۔ انہوں نے پوچھا: اے ابن جریج! یہ کون سی چیزیں ہیں؟ میں نے کہا: آپ (طواف کے دوران میں) صرف دو یمنی رکنوں (کعبہ کی دو دیواریں جو یمن کی طرف ہیں) کو چھوتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ بغیر بالوں والے جوتے پہنتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ زرد خضاب لگاتے ہیں اور جب آپ مکہ میں ہوتے ہیں (اور) لوگ (ذوالحجہ کا) چاند دیکھتے ہی لبیک کہنا شروع کرتے ہیں جبکہ آپ ترویہ کے دن (۸ ذولحجہ) سے پہلے لبیک نہیں کہتے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رہا مسئلہ ارکان کا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو یمنی ارکان چھونے کے علاوہ نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی رکن کو چھوا ہو، رہے بغیر بالوں والے جوتے، تو میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر بالوں والے جوتے پہنتے اور ان میں وضو کرتے تھے اور میں پسند کرتا ہوں کہ انہیں پہنوں، رہا زرد خضاب تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خضاب لگاتے ہوئے دیکھا ہے اور میں اس وجہ سے یہ خضاب لگانا پسند کرتا ہوں، رہا لبیک کہنا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (منیٰ کی طرف ۸ ذوالحجہ کو) سواری روانہ کرنے سے پہلے لبیک کہتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 631]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 166، ومسلم 1187، من حديث مالك به، سقط من الأصل واستدركته من رواية يحييٰ بن يحييٰ]
تفقه:
➊ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اتباعِ سنت میں سبقت لے جانے والے تھے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل سے محبت کرتے تھے۔
➋ ہر سوال کا دلیل سے جواب دینا اہل ایمان کا عظیم شعار ہے۔
➌ بعض لوگ اگر کسی مسنون عمل کو ترک کردیں تو یہ اس عمل کے متروک ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
➍ جس مسئلے کا علم نہ ہو تو اہلِ علم سے پوچھ لینا چاہئے۔
➎ اہلِ حق میں بعض اجتہادی امور میں اختلاف ہوسکتا ہے اور ایسا اختلاف صحابہ و تابعین کے زمانے میں بھی ہوا ہے۔
➏ جب کسی مسئلے میں اختلاف ہوجائے تو اسے دلیل یعنی قرآن وحدیث اور اجماع سے حل کرنا چاہئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: «لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَّيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ» تاکہ جو ہلاک ہو تو دلیل دیکھ کر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے تو دلیل دیکھ کر زندہ رہے۔ [الانفال: 42] نیز دیکھئے [سورة النحل: 64]
➐ بالوں کو سرخ مہندی لگانا مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔ مشہور تابعی ابواسحاق عمرو بن عبداللہ السبیعی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے علی (رضی اللہ عنہ) کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔۔۔ آپ کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ الخ [تهذيب الآثار لابن جرير الطبري تحقيق على رضا: 935، وسنده صحيح، مصنف عبدالرزاق 3/189 ح5267، المعجم الكبير للطبراني 1/93 ح155]
◄ عامر الشعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے، آپ کی داڑھی نے کندھوں کے درمیان کو بھرا ہوا تھا۔ الخ [الآحاد والمثاني لابن ابي عاصم 1/137 ح154، وسنده صحيح، رواية يحييٰ القطان عن إسماعيل بن ابي خالد عن عامر الشعبي محمولة على السماع، انظر الجرح والتعديل 2/175، عن ابن المديني رحمه الله بلفظ آخر وسنده صحي،]
◄ عتی بن ضمر رحمہ اللہ نے کہا: میں نے اُبی بن کعب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا، آپ کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ [تهذيب الآثار للطبراني ص499 ح942 وسنده صحيح]
استحباب کے دلائل وہ روایات ہیں جن میں بالوں کو رنگنے اور یہود ونصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5899، وصحيح مسلم 2103]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 418
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2946
´حجر اسود کے استلام (چومنے یا چھونے) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بجز حجر اسود اور اس کے جو اس سے قریب ہے یعنی رکن یمانی جو بنی جمح کے محلے کی طرف ہے بیت اللہ کے کسی کونے کا استلام نہیں فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2946]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:
(1)
بیت اللہ کے چار کونے ہیں۔
حجرالاسود والا کو نہ، رکن یمانی، رکن شامی اور رکن عراقی۔
نبی اکرمﷺ کے زمانہ مبارک میں حجر اسود اور رکن یمانی تو اسی مقام پر تھے جہاں ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کرتے وقت بنائے تھے البتہ رکن شامی اور رکن عراقی ابراہیمی تعمیر پر قائم نہیں تھے کیونکہ اہل مکہ نے کعبہ شریف تعمیر کرتے وقت اس کا کچھ حصہ چھوڑدیا تھا۔
یہ چھوڑا ہوا حصہ حطیم یا حجر کہلاتا ہے۔
موجودہ تعمیر بھی اسی انداز سے ہےکہ حطیم کعبہ شریف کی عمارت سے باہر ہے۔
(2)
حجر اسود کا استلام بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا یا اشارہ کرنا ہے۔
رکن یمانی کا استلام صرف ہاتھ لگانا ہے۔
(3)
حجر اسود کے سوا کعبہ شریف کے کسی حصے کو چومنا خلاف سنت ہے۔
ملتزم کو بھی بوسہ نہیں دیا جاتا۔
اسی طرح کعبہ شریف کے علاوہ کسی اور عمارت مزار یا یادگار وغیرہ کو بوسہ دینا بھی جائز نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2946
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1772
´احرام کے وقت کا بیان۔`
عبید بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! میں نے آپ کو چار کام ایسے کرتے دیکھا ہے جنہیں میں نے آپ کے اصحاب میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا ہے؟ انہوں نے پوچھا: وہ کیا ہیں ابن جریج؟ وہ بولے: میں نے دیکھا کہ آپ صرف رکن یمانی اور حجر اسود کو چھوتے ہیں، اور دیکھا کہ آپ ایسی جوتیاں پہنتے ہیں جن کے چمڑے میں بال نہیں ہوتے، اور دیکھا آپ زرد خضاب لگاتے ہیں، اور دیکھا کہ جب آپ مکہ میں تھے تو لوگوں نے چاند دیکھتے ہی احرام باندھ لیا لیکن آپ نے یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کے آنے تک احرام نہیں باندھا، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رہی رکن یمانی اور حجر اسود کی بات تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف انہیں دو کو چھوتے دیکھا ہے، اور رہی بغیر بال کی جوتیوں کی بات تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی جوتیاں پہنتے دیکھی ہیں جن میں بال نہیں تھے اور آپ ان میں وضو کرتے تھے، لہٰذا میں بھی انہی کو پہننا پسند کرتا ہوں، اور رہی زرد خضاب کی بات تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زرد رنگ کا خضاب لگاتے دیکھا ہے، لہٰذا میں بھی اسی کو پسند کرتا ہوں، اور احرام کے بارے میں یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک لبیک پکارتے نہیں دیکھا جب تک کہ آپ کی سواری آپ کو لے کر چلنے کے لیے کھڑی نہ ہو جاتی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1772]
1772. اردو حاشیہ: حضرت عبد اللہ بن عمر نے اپنے ہر ہر عمل کو سنت رسول ﷺ کے تابع رکھا ہوا تھا۔اور یہی دین و شریعت ہے۔ اور آٹھویں ذوالحجہ کو احرام باندھنے کا عمل اور ان کا جواب اس قیاس واجتہاد پر مبنی ہے کہ نبی ﷺ میقات میں سفر حج شروع کرنے سے پہلے احرام یا تلبیہ پکارے تھے بلکہ بالکل آخری وقت میں کہتے جب اس سے چارہ نہ ہوتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1772
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:166
166. حضرت عبید بن جریج سے روایت ہے، انہوں نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے دریافت کیا: اے ابو عبدالرحمٰن! میں آپ کو چار ایسی چیزیں کرتے دیکھتا ہوں جو آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی نہیں کرتا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: ابن جریج! وہ کیا؟ میں نے عرض کیا: میں دیکھتا ہوں کہ آپ حجراسود اور رکن یمانی کے علاوہ بیت اللہ کے کسی کونے کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ (دوسرے) آپ سبتی جوتے پہنتے ہیں اور (تیسرے) زرد خضاب استعمال کرتے ہیں۔ (چوتھے) مکے میں دوسرے لوگ تو ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی احرام باندھ لیتے ہیں مگر آپ آٹھویں تاریخ تک احرام نہیں باندھتے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے جواب دیا: بیت اللہ کے کونوں کو چھونے کی بات تو یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دونوں یمانی رکنوں کے علاوہ اور کسی رکن کو ہاتھ لگاتے نہیں دیکھا۔ اور سبتی جوتوں کے متعلق یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسی جوتیاں پہنے دیکھا جن پر بال نہ تھے اور آپ ان میں وضو فرماتے تھے، لہذا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:166]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ وضو کرتے وقت پاؤں کا وظیفہ انھیں دھونا ہے خواہ جوتا ہی کیوں نہ پہنا ہو۔
اگر پاؤں موزوں یا جرابوں میں نہیں ہیں تو ان کا دھونا معین ہے بصورت دیگران پر مسح کیا جا سکتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ جوتوں کو موزوں کا حکم دے کر ان پر مسح کرنے کی اجازت دے دی جائے۔
اگر وضو کرنے والا جوتا پہنے ہوئے ہے تو وضو کے وقت دو صورتیں ممکن ہیں۔
(1)
۔
جوتا پہنے ہوئے پاؤں دھوئے جائیں۔
یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ پاؤں میں چپل، سوفٹی وغیرہ ہو کیونکہ بند جوتے میں پاؤں نہیں دھوئے جا سکتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوتا پہنے پہنے پاؤں دھونا ثابت ہے چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے وقت نعلین کی موجودگی میں پاؤں پر پانی ڈالا پھر انھیں ادھر ادھر موڑا تاکہ پانی پاؤں کے تمام حصوں تک پہنچ جائے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 117 عن علي، و حدیث: 137 عن إبن عباس)
نعل سے مراد عربی جوتا ہے جو چپل کی طرح ہوتا ہے۔
اس سے بند جوتا مراد نہیں۔
2۔
دوسری صورت یہ ہے کہ جوتا اتار کر پاؤں دھوئے جائیں۔
اس میں کوئی تکلف نہیں ہو تا بلکہ پاؤں دھونے میں آسانی رہتی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا استدلال لفظ (يُتَوَضَّأُ فيها)
سے ہے کیونکہ وضو میں اصل غسل اعضاء ہے لفظ (تَوَضَّأُ)
دھونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے نیز اگر مسح کیا ہوتا تو (يُتَوَضَّأُ فيها)
کے بجائے (يَتَوَضَّأُ عَلَيْهَا)
ہونا چاہیے تھا۔
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، دوسرا جز بایں الفاظ ہے کہ جوتوں پر مسح نہ کیا جائے۔
اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان روایات کے ضعف کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جن میں جوتوں پر مسح کرنے کا ذکر ہے مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ انھوں نے وضو کرتے وقت جوتوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔
(سنن الکبری للبيهقي: 287/1)
اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتوں پر مسح فرمایا۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 159)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جن روایات کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے ان کی صحت اور ضعف میں اختلاف ہے۔
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات کو صحیح کہا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے (تمام المنة، ص:
(115۔
113)
وفتاوی الدین الخالص: 2 /359۔
363)
دلائل کے اس اختلاف کی وجہ سے اہل علم کا ایک گروہ جوتوں پر مسح کے جواز کا قائل ہے جبکہ بعض اہل علم اسے ناجائز کہتے ہیں دلائل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسح کرنے کی گنجائش موجود ہے تاہم چپل نما جوتوں پر مسح نہ کرنا ہی بہتر ہے۔
3۔
عرب فطری طور پر سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے۔
جوتوں کے متعلق ان کا عمومی ذوق یہ تھا کہ اونٹ بکری کی کھال کو خشک کیا اسے کاٹ کر اس میں تسمے لگا لیے ان کے یہی جوتے ہوتے تھے لیکن عرب کے علاوہ دوسرے لوگ چمڑے کو دباغت سے خشک کرتے ان کے بال وغیرہ دور کرتے پھر اس چمڑے کو جوتے میں استعمال کرتے جن جوتوں پر بال نہ ہوتے انھیں سبتی جوتا کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس قسم کے سبتی جوتے بطور تحفہ آتے اور آپ انہیں استعمال فرماتے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما چونکہ شدید الاتباع تھے اس لیے جہاں سے اس قسم کا جوتا ملتا وہ اسے حاصل کرتے اور پہنتے تھے ان پر اعتراض ہوا تو انھوں نے یہ جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کا جوتا پہنتے دیکھا ہے پھر آپ نے ضمناً یہ بات بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں وضو کرتے تھے یعنی ان پر مسح نہیں کرتے تھے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس ضمنی بات سے ایک اہم مسئلہ مستنبط فرمایا۔
روایت میں بیان شدہ دیگر مسائل کے متعلق کتاب الحج اور كتاب اللباس میں بحث ہوگی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 166