حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، انه سمع انس بن مالك، يقول: قال ابو طلحة: لام سليم لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفا اعرف فيه الجوع فهل عندك من شيء، قالت: نعم، فاخرجت اقراصا من شعير، ثم اخرجت خمارا لها فلفت الخبز ببعضه ثم دسته تحت يدي ولاثتني ببعضه، ثم ارسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد ومعه الناس فقمت عليهم، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اارسلك ابو طلحة، فقلت: نعم، قال: بطعام، فقلت: نعم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لمن معه قوموا فانطلق وانطلقت بين ايديهم حتى جئت ابا طلحة فاخبرته، فقال ابو طلحة: يا ام سليم قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس وليس عندنا ما نطعمهم، فقالت: الله ورسوله اعلم فانطلق ابو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو طلحة معه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هلمي يا ام سليم ما عندك فاتت بذلك الخبز فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ففت وعصرت ام سليم عكة فادمته، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فيه ما شاء الله ان يقول، ثم قال: ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة فاكل القوم كلهم وشبعوا والقوم سبعون او ثمانون رجلا".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: لِأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ، قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَأَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِطَعَامٍ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً فَأَدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِيهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے خبر دی، انہیں اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے (میری والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو آپ کی آواز میں بہت ضعف معلوم ہوا۔ میرا خیال ہے کہ آپ بہت بھوکے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، چنانچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی نکالی او اس میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ میں چھپا دیا اور اس اوڑھنی کا دوسرا حصہ میرے بدن پر باندھ دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجھے بھیجا۔ میں جو گیا تو آپ مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں آپ کے پاس کھڑا ہو گیا تو آپ نے فرمایا کیا ابوطلحہ نے تمہیں بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے دریافت فرمایا، کچھ کھانا دے کر؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، جو صحابہ آپ کے ساتھ اس وقت موجود تھے، ان سب سے آپ نے فرمایا کہ چلو اٹھو، آپ تشریف لانے لگے اور میں آپ کے آگے آگے لپک رہا تھا اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچ کر میں نے انہیں خبر دی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے، ام سلیم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت سے لوگوں کو ساتھ لائے ہیں ہمارے پاس اتنا کھانا کہاں ہے کہ سب کو کھلایا جا سکے؟ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں (ہم فکر کیوں کریں؟) خیر ابوطلحہ آگے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ بھی چل رہے تھے۔ ام سلیم نے وہی روٹی لا کر آپ کے سامنے رکھ دی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے روٹیوں کا چورا کر دیا گیا، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کپی نچوڑ کر اس پر کچھ گھی ڈال دیا، اور اس طرح سالن ہو گیا، آپ نے اس کے بعد اس پر دعا کی جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ پھر فرمایا دس آدمیوں کو بلا لو، انہوں نے ایسا ہی کیا، ان سب نے روٹی پیٹ بھر کر کھائی اور جب یہ لوگ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو بلا لو۔ چنانچہ دس آدمیوں کو بلایا گیا، انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا، جب یہ لوگ باہر گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دس ہی آدمیوں کو اندر بلا لو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ جب وہ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو دعوت دے دو۔ اس طرح سب لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ ان لوگوں کی تعداد ستر یا اسی تھی۔
Narrated Anas bin Malik: Abu Talha said to Um Sulaim, "I have noticed feebleness in the voice of Allah's Apostle which I think, is caused by hunger. Have you got any food?" She said, "Yes." She brought out some loaves of barley and took out a veil belonging to her, and wrapped the bread in part of it and put it under my arm and wrapped part of the veil round me and sent me to Allah's Apostle. I went carrying it and found Allah's Apostle in the Mosque sitting with some people. When I stood there, Allah's Apostle asked, "Has Abu Talha sent you?" I said, "Yes". He asked, "With some food? I said, "Yes" Allah's Apostle then said to the men around him, "Get up!" He set out (accompanied by them) and I went ahead of them till I reached Abu Talha and told him (of the Prophet's visit). Abu Talha said, "O Um Sulaim! Allah's Apostle is coming with the people and we have no food to feed them." She said, "Allah and His Apostle know better." So Abu Talha went out to receive Allah's Apostle. Allah's Apostle came along with Abu Talha. Allah's Apostle said, "O Um Sulaim! Bring whatever you have." She brought the bread which Allah's Apostle ordered to be broken into pieces. Um Sulaim poured on them some butter from an oilskin. Then Allah's Apostle recited what Allah wished him to recite, and then said, "Let ten persons come (to share the meal)." Ten persons were admitted, ate their fill and went out. Then he again said, "Let another ten do the same." They were admitted, ate their fill and went out. Then he again said, '"'Let another ten persons (do the same.)" They were admitted, ate their fill and went out. Then he said, "Let another ten persons come." In short, all of them ate their fill, and they were seventy or eighty men.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 778
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3578
حدیث حاشیہ: آپ ﷺ نے اس کھانے میں دعاءبرکت فرمائی۔ اتنے لوگوں کے کھالےنے کے بعد بھی کھانا بچ رہا۔ آنحضرت ﷺ نے ابوطلحہ اور ام سلیم ؓ کے ساتھ ان کے گھر میں کھانا کھایا اور جو بچ رہا وہ ہمسایوں کو بھیج دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3578
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3578
حدیث حاشیہ: 1۔ مذکورہ واقعہ غزوہ احزاب کے موقع پر پیش آیا۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرانورپر کمزوری کے اثرات دیکھے تھے ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس ؓنے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے اپنے پیٹ پر کپڑا باندھا ہوا تھا۔ انھیں پتہ چلا کہ آپ نے بھوک کی وجہ سے ایسا کیا ہے وہ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے حتی الوسع کھانے کا بندو بست فرمایا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5323(2040) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی سے گھی کو مس کیا پھر روٹی پر ہاتھ پھیرا تو وہ بڑی ہو گئی۔ آپ نے بسم اللہ پڑھی اسی طرح وہ روٹی بڑی ہوتی گئی حتی کہ بڑا برتن اس روٹی سے بھر گیا۔ (صحیح ابن حبان بلبان: 94/12) ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر دعا فرمائی: ”اے اللہ! اس میں برکت ڈال دے۔ “(مسند أحمد: 242/3) بہر حال اس تھوڑے سے کھانے میں اتنی برکت پڑی کہ ستر یا اسی آدمیوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ آخرمیں رسول اللہ ﷺ اور اہل خانہ نے اسے تناول کیا۔ پھر بھی کھانا بچ گیا تو ہمسایوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5321(2040) ایک روایت میں ہےکہ جوکھانا بچ گیا تھا رسول اللہ ﷺ نے اسے ایک جگہ اکٹھا کر کے اس پر برکت کی دعا فرمائی تو وہ اتنا ہی ہو گیا جس قدر پہلے تھا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5318(2040) 2۔ قبل ازیں تکثیر پانی کا معجزہ تھا۔ اس حدیث سے تکثیرطعام کا علم ہوا۔ اس سے عجیب تر معجزہ یہ ہے جسے حضرت جابر ؓ نے بیان کیا ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھوک کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: ”اللہ اس کا ضرور بندو بست کرے گا۔ “ چنانچہ بعد ازاں ہم ساحل سمندر پر آئے تو سمندر نے بہت بڑی مچھلی باہر پھینک دی۔ ہم نے سمندر کے کنارے آگ جلائی اور اسے بھون بھون کر کئی دن تک کھاتے رہے۔ وہ اتنی بڑی تھی کہ ہم پانچ آدمی اس کی آنکھ کے خول میں چھپ کر بیٹھ گئے پھر ہم نے اس کی پسلی کی ہڈی کو زمین پر کھڑا کیا تو ایک لمبا آدمی جس اونٹ بھی طویل القامت تھا اسے نیچے سے گزاراگیا تو وہ آسانی سے گزر گیا۔ اس کا سر چوٹی سے نہیں ٹکرایا۔ (صحیح مسلم، الزھدوالرقائق، حدیث: 7520۔ 3014)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3578