حدثنا إسماعيل , عن اخيه , عن سليمان , عن عمرو بن يحيى , عن عباد بن تميم , قال:" لما كان يوم الحرة , والناس يبايعون لعبد الله بن حنظلة , فقال ابن زيد: على ما يبايع ابن حنظلة الناس؟ قيل له: على الموت , قال: لا ابايع على ذلك احدا بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم , وكان شهد معه الحديبية.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , عَنْ أَخِيهِ , عَنْ سُلَيْمَانَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى , عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ , قَالَ:" لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْحَرَّةِ , وَالنَّاسُ يُبَايِعُونَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ , فَقَالَ ابْنُ زَيْدٍ: عَلَى مَا يُبَايِعُ ابْنُ حَنْظَلَةَ النَّاسَ؟ قِيلَ لَهُ: عَلَى الْمَوْتِ , قَالَ: لَا أُبَايِعُ عَلَى ذَلِكَ أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَكَانَ شَهِدَ مَعَهُ الْحُدَيْبِيَةَ.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے بھائی عبدالحمید نے ‘ ان سے سلیمان بن بلال نے ‘ ان سے عمرو بن یحییٰ نے اور ان سے عباد بن تمیم نے بیان کیا کہ حرہ کی لڑائی میں لوگ عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔ عبداللہ بن زید نے پوچھا کہ ابن حنظلہ سے کس بات پر بیعت کی جا رہی ہے؟ تو لوگوں نے بتایا کہ موت پر۔ ابن زید نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب میں کسی سے بھی موت پر بیعت نہیں کروں گا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں شریک تھے۔
Narrated `Abbas bin Tamim: When it was the day (of the battle) of Al-Harra the people were giving Pledge of allegiance to `Abdullah bin Hanzala. Ibn Zaid said, "For what are the people giving Pledge of allegiance to `Abdullah bin Hanzala?" It was said to him, "For death." Ibn Zaid said, "I will never give the Pledge of allegiance for that to anybody else after Allah's Apostle ." Ibn Zaid was one of those who had witnessed the day of Al-Hudaibiya with the Prophet.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 485
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4167
حدیث حاشیہ: جہاں آنحضرت ﷺ نے صحابہ ؓ سے موت پر بیعت لی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4167
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4167
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ کامقصود یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید ؓ صلح حدیبیہ کے وقت موجود تھے اورانھوں نے بیعت رضوان میں شمولیت کی تھی۔ 2۔ حرہ مدینہ طیبہ سے باہر ایک میدان ہے جہاں اہل مدینہ اور یزید کے لشکر کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔ اہل مدینہ نے یزید کی بیعت کو ختم کردیا تھا۔ اس واقعے میں عبداللہ بن حنظلہ اور اس کی تمام اولاد شہید ہوگئی تھی۔ 3۔ اگرچہ موت ایک غیر اختیاری فعل ہے اور اس غیر اختیاری فعل پر بیعت لینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں لڑتے رہیں گے، راہ فرار اختیار نہیں کریں گے یہاں تک کہ موت آجائے، اس معنی میں یہ بیعت ایک اختیاری فعل پر ہوگی۔ اسکی تفصیل ہم کتاب الجہاد میں بیان کرآئے ہیں اورموت پر بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میدان جہاد میں ڈٹ کرمقابلہ کریں گے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4167
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4824
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ان کے پاس کوئی آدمی آیا اور کہنے لگا، یہ حنظلہ کا بیٹا لوگوں سے بیعت لے رہا ہے، تو انہوں نے پوچھا، کس چیز پر؟ اس نے کہا، موت پر، انہوں نے کہا، میں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے بیعت نہیں کروں گا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4824]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بیعت رضوان اس شرط پر لی گئی تھی، کہ کوئی راہ فرار اختیار نہیں کرے گا اور اس کا مقصد یہی تھا، ہم جان قربان کر دیں گے، لیکن بھاگیں گے نہیں، اس لیے بعض صحابہ کرام نے الفاظ کا لحاظ رکھتے ہوئے کہا، ہم نے موت پر نہیں، فرار نہ اختیار کرنے پر بیعت کی تھی، لیکن بعض نے انجام یا نتیجہ اور مقصد کا لحاظ کرتے ہوئے یہ کہا، کہ ہم نے موت پر بیعت کی تھی کیونکہ جب مقابلہ میں ڈٹ جانا ہے اور ہر قسم کے حالات پر صبر کرنا ہے، تو اس کا انجام موت بھی ہو سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4824
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2959
2959. حضرت عبد اللہ بن زید ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ واقعہ حرہ میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے ان سے کہا کہ حضرت حنظلہ ؓ کا بیٹا لوگوں سے موت پر بیعت لے رہا ہے تو حضرت عبد اللہ بن زید ؓنےکہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی سے اس پر بیعت نہیں کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2959]
حدیث حاشیہ: حرہ کی لڑائی کی تفصیل یہ کہ ۶۳ھ میں حضرت عبداللہ بن حنظلہ اور کئی مدینہ والے یزید کو دیکھنے گئے۔ جبکہ وہ لوگوں سے اپنی خلافت کی بیعت لے رہا تھا۔ مدینہ کے اس وفد نے جائزہ لیا تو یزید کو خلافت کا نا اہل پایا۔ اور اس کی حرکات ناشائستہ سے بیزار ہو کر واپس مدینہ لوٹے اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرلی۔ یزید کو جب خبر ہوئی تو اس نے مسلم بن عقبہ کو سردار بنا کر ایک بڑا لشکر مدینہ روانہ کردیا۔ جس نے اہل مدینہ پر بہت سے ظلم ڈھائے‘ سینکڑوں ہزاروں صحابہ وتابعین اور عوام و خواص‘ مردوں و عورتوں اور بچوں تک کو قتل کیا۔ یہ حادثہ حرہ نامی ایک میدان متصل مدینہ میں ہوا۔ اسی لئے اس کی طرف منسوب ہوا۔ عبداللہ بن زید کا مطلب یہ تھا کہ ہم تو خود رسول کریمﷺ کے دست حق پرست پر موت کی بیعت کرچکے ہیں۔ اب دوبارہ کسی اور کے ہاتھ پر اس کی تجدید کی ضرورت نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ موت پر بھی بیعت کی جاسکتی ہے۔ جس سے استقامت اور صبر مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2959
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2959
2959. حضرت عبد اللہ بن زید ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ واقعہ حرہ میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے ان سے کہا کہ حضرت حنظلہ ؓ کا بیٹا لوگوں سے موت پر بیعت لے رہا ہے تو حضرت عبد اللہ بن زید ؓنےکہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی سے اس پر بیعت نہیں کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2959]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ کی خاطر سردھڑ کی بازی لگا دینا ایمان کاحصہ ہے لیکن آپ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے یہ اعزاز نہیں کہ اس کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دیا جائے،بلکہ ایساکرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے کیونکہ اگر غیرنبی کی بیعت موت پر کی جائے، پھر اس کی غلطی واضح ہوجائے تو دوصورتیں ہیں: اس کی بیعت پر بدستور قائم رہا جائے۔ اس صورت میں موت خلاف حق ہوگی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کی بیعت ترک کردی جائے۔ اس وقت موت ترک بیعت پر ہوگی۔ دونوں صورتیں ہی ہلاکت خیز ہیں، اس لیے آغاز امر میں بیعت نہ کرنا آسان ہے کہ موت خلاف حق یاترک بیعت پر آئے۔ 2۔ واضح رہے کہ عبداللہ بن حنظلہ لوگوں سے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے لیے مرمٹنے پر بیعت لے رہے تھے جس کا انکار حضرت عبداللہ بن زید ؓنے کیا۔ اس کامطلب یہ تھا کہ ہم تو خود رسول اللہ ﷺکے دست حق پر موت کی بیعت کرچکے ہیں، اب دوبارہ کسی دوسرے کے ہاتھ پر نئے سرے سے بیعت کی ضرورت نہیں۔ 3۔ اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کرنا واضح نہ تھا، اس لیے امام بخاری ؒنے آگے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے بیعت موت پر ہوئی تھی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2959