4531. حضرت مجاہد سے روایت ہے، انہوں نے اس آیت: "تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں" کے متعلق فرمایا کہ یہ عدت (چار ماہ دس دن) جو عورت گزارتی تھی یہ اپنے شوہر کے گھر والوں کے پاس گزارنا ضروری تھی۔ پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: "اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ اپنی بیویوں کے حق میں ایک سال تک فائدہ اٹھانے اور گھر سے نہ نکالنے کی وصیت کر جائیں، البتہ اگر وہ خود نکلنا چاہیں تو ان کے اپنے بارے میں دستور کے مطابق کوئی کام کرنے کی بنا پر تمہیں کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" مجاہد فرماتے ہیں: اللہ تعالٰی نے ایسی عورت کے لیے باقی سال، یعنی سات ماہ بیس دن وصیت کے قرار دیے ہیں۔ اگر وہ چاہے تو اپنے لیے کی گئی وصیت کے مطابق شوہر کے گھر میں رہے اور اگر چاہے تو کسی اور جگہ چلی جائے۔ اللہ تعالٰی کے فرمان: "انہیں نہ نکالا جائے، ہاں اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4531]
حدیث حاشیہ: 1۔
اس مقام پر دو آیات کی وضاحت مطلوب ہے جو حسب ذیل ہیں۔
"جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور اپنی بیویاں چھوڑ جائیں تو انھیں چار ماہ دس دن تک انتظار کرنا ہو گا۔
"
(البقرہ: 2/234) یہ آیت تربص ہے اور قرآنی ترتیب میں مقدم ہے۔
"اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور اپنی بیویاں چھوڑجائیں وہ ایک سال تک بیویوں کو نفع پہنچانے کی وصیت کر جائیں کہ انھیں گھر سے نہ نکالا جائے ہاں اگر وہ کود نکل جائیں تو کوئی حرج نہیں۔
''
(البقرہ: 240/2) یہ آیت حول ہے اور قرآنی ترتیب میں مؤخرواقع ہے جمہور کے مطابق آیت حول منسوخ ہے اور اس کی ناسخ آیت تربص ہے جو ترتیب میں اس سے پہلے ہے۔
حالانکہ آیت منسوخ پہلے اور آیت ناسخ بعد میں نازل ہوئی ہے۔
2۔
موجود ترتیب کے پیش نظر مجاہد اور عطاء نے یہ دعوی کیا ہے کہ آیت حول جو مؤخر سے منسوخ نہیں بلکہ آیت تربص کی وضاحت کرتی ہے کیونکہ منسوخ آیت تو ناسخ آیت سے پہلے ہوا کرتی ہے ترتیب نزول میں تو واقعی یہی ہوتا ہے لیکن تلاوت کی ترتیب میں یہ ضروری نہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موجودہ ترتیب آیات جو تلاوت کے وقت ملحوظ رہتی ہے۔
توقیفی ہے، اس میں رائے اور قیاس کوکوئی دخل نہیں۔
اس بنا پر جمہور اہل علم اس امر پر متفق ہیں کہ آیت حول منسوخ ہے اور آیت تربص اس کے لیے ناسخ ہے۔
پہلے عورت بیوگی کی عدت ایک سال گزارا کرتی تھی۔
پھر جب آیت تربص نازل ہوئی تو اس میں بیوگی کی عدت سال کے بجائے چارہ ماہ دس دن مقرر کی گئی لیکن امام مجاہد اور عطاء نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس موقف کے برعکس نقل کیا ہے کہ آیت حول منسوخ نہیں بلکہ وصیت کا حکم آیت حول میں چار ماہ دس دن کی عدت کے مقرر ہونے کے بعد دیا گیا ہے۔
پھر ان بیوگان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چاہیں تو اس وصیت سے استفادہ کریں۔
اگر استفادہ نہ کرنا چاہیں توجہاں چاہیں عدت کے ایام گزار لیں۔
3۔
یاد رہے کہ اس مقام پر ناسخ آیت تربص تلاوت میں منسوخ آیت حول سے مقدم ہے لیکن نزول میں مؤخر ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ ناسخ آیت تلاوت اور نزول دونوں میں مؤخر ہو لیکن قرآن مجید میں اس طرح کی اور مثالیں بھی موجود ہیں جیسا کہ آیت:
﴿قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ) تلاوت میں
(سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ﴾ سے مؤخر ہے لیکن نزول میں مقدم ہے واللہ اعلم۔
ہمارے رجحان کے مطابق جمہور اہل علم کا موقف مبنی پر حقیقت ہے کہ آیت تربص ناسخ ہے اور آیت حول منسوخ جبکہ امام مجاہد اور حضرت عطاء کو آیت حول کے تلاوت میں مؤخر ہونے کی وجہ سے وہم ہوا اور انھوں نے آیت حول کو ناسخ اور آیت تربص کو منسوخ سمجھ لیا۔