حدثني إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، اخبرنا النضر، حدثنا داود بن ابي الفرات، عن عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، ان عائشة رضي الله عنها، اخبرته: انها سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الطاعون؟ فقال:" كان عذابا يبعثه الله على من يشاء فجعله الله رحمة للمؤمنين، ما من عبد يكون في بلد يكون فيه، ويمكث فيه لا يخرج من البلد، صابرا محتسبا، يعلم انه لا يصيبه إلا ما كتب الله له، إلا كان له مثل اجر شهيد".حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ؟ فَقَالَ:" كَانَ عَذَابًا يَبْعَثُهُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ فَجَعَلَهُ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ، مَا مِنْ عَبْدٍ يَكُونُ فِي بَلَدٍ يَكُونُ فِيهِ، وَيَمْكُثُ فِيهِ لَا يَخْرُجُ مِنَ الْبَلَدِ، صَابِرًا مُحْتَسِبًا، يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ، إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيدٍ".
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو نضر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے داؤد بن ابی الفرات نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن یعمر نے بیان کیا اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عذاب تھا اور اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اسے بھیجتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا، کوئی بھی بندہ اگر کسی ایسے شہر میں ہے جس میں طاعون کی وبا پھوٹی ہوئی ہے اور اس میں ٹھہرا ہے اور اس شہر سے بھاگا نہیں صبر کئے ہوئے ہے اور اس پر اجر کا امیدوار ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس تک صرف وہی چیز پہنچ سکتی ہے جو اللہ نے اس کی تقدیر میں لکھ دی ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔
Narrated `Aisha: I asked Allah's Apostle about the plague. He said, "That was a means of torture which Allah used to send upon whom-so-ever He wished, but He made it a source of mercy for the believers, for anyone who is residing in a town in which this disease is present, and remains there and does not leave that town, but has patience and hopes for Allah's reward, and knows that nothing will befall him except what Allah has written for him, then he will get such reward as that of a martyr."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 77, Number 616
عذاب يبعثه الله على من يشاء وأن الله جعله رحمة للمؤمنين ليس من أحد يقع الطاعون فيمكث في بلده صابرا محتسبا يعلم أنه لا يصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل أجر شهيد
عذابا يبعثه الله على من يشاء فجعله الله رحمة للمؤمنين فليس من عبد يقع الطاعون فيمكث في بلده صابرا يعلم أنه لن يصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل أجر الشهيد
عذابا يبعثه الله على من يشاء فجعله الله رحمة للمؤمنين ما من عبد يكون في بلد يكون فيه ويمكث فيه لا يخرج من البلد صابرا محتسبا يعلم أنه لا يصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل أجر شهيد
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6619
حدیث حاشیہ: طاعون ایک ورم سے شروع ہوتا ہے جو بغل یا گردن میں ظاہر ہوتا ہے اس سے بخار ہوکر آدمی جلد ہی مرجاتاہے۔ اللہ أحفظنا آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6619
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6619
حدیث حاشیہ: (1) طاعون ایک پھوڑے سے شروع ہوتا ہے جو بغل یا گردن پر نکلتا ہے، اس کی وجہ سے بخار ہوتا ہے اور انسان جلدی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ طاعون جیسی تکلیف دہ بیماری دنیا میں اپنے اسباب ہی سے آتی ہے لیکن اس بیماری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے باعث رحمت بنا دیا گیا ہے جس کی چند شرائط ہیں: ٭ جب اس کے شہر میں طاعون آئے تو ڈر کر وہاں سے بھاگ نہ جائے کیونکہ ڈر کر بھاگنا اس کی پختگی اور تقدیر پر اعتماد کے خلاف ہے۔ ٭ شہر میں رہنا بھی ہو تو صابر بن کر رہے کسی کاروباری یا برادری کی مجبوری سے نہ ہو۔ ٭ وہاں رہتے ہوئے ثواب کی نیت کو شامل کر لے کیونکہ اعمال میں نیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ ٭ یہ عقیدہ رکھے کہ جو اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے نہ تو اس کے خلاف ہو سکتا ہے اور نہ اس سے فرار ہی ممکن ہے۔ اگر ان شرائط کی ادائیگی کے بعد وہاں موت آ گئی تو اسے شہید کا ثواب ملے گا۔ (2) بہرحال رضا بالقضاء کے عقیدے سے انسان کی زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مثلاً: تقدیر پر ایمان لانے سے بندے پر مصائب آسان ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، بندۂ مومن ان مصائب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان سمجھتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ ٭ ایمان بالقدر سے انسان ہمیشہ اپنی زندگی کے لیے نیک اعمال کی تمنا اور اچھے کردار کی جستجو کرتا ہے، اسی کو تقدیر کا فیصلہ قرار دیتا ہے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہر وقت مصروف رہتا ہے۔ ٭ تقدیر پر ایمان کے نتیجے میں بندے سے صحیح افعال صادر ہوتے ہیں اور اچھے اوصاف پیدا ہوتے ہیں، نیز وہ راہ حق میں دین کی حمایت کے لیے خطرات مول لیتا ہے اور اس پر لوگوں کو آمادہ کرتا ہے۔ ٭ ایمان بالقدر کے ذریعے سے انسان مایوسی اور ناامیدی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا، نیز نقصان اور پریشانی کے وقت خودکشی جیسی لعنت کو گلے نہیں لگاتا۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث میں مقصود یہ ہے کہ انسان کو جو تکلیف بھی پہنچتی ہے وہ پہلے سے اللہ تعالیٰ کے ہاں فیصلہ شدہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اس پر صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے اجروثواب کی امید رکھے۔ (فتح الباري: 627/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6619
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5734
5734. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق سوال کیا تو اللہ کے نبی ﷺ نے انہیں بتایا: طاعون (اللہ کا) عذاب تھا وہ اسے جس پر چاہتا بھیج دیتا، پھر اللہ تعالٰی نے اس کا اہل ایمان کے لیے باعث رحمت بنا دیا۔ اب کوئی بھی اللہ کا بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے جہاں طاعون پھوٹ پڑا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ جو کچھ اللہ تعالٰی نے اس کے لیے لکھ دیا ہے وہ اس کو ضرور پہنچ کررہے گا تو اس کو شہید کا سا ثواب ملے گا۔ نضر بن شمیل نے داود سے روایت کرنے میں حبان بن ہلال کی متابعت کی ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:5734]
حدیث حاشیہ: ابن ماجہ اور بیہقی کی روایت میں یوں ہے کہ طاعون اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی ملک میں بد کاری عام طورپر پھیل جاتی ہے۔ مولانا روم نے سچ کہا ہے۔ وز زنا خیز د وبا اندر جہات۔ مسلمان کے لیے طاعون کی موت مرنا شہادت کادرجہ رکھتا ہے جیسا کہ حدیث ہذا میں ذکر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5734
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3474
3474. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق پوچھا تو آپ نے مجھے بتایا: ”وہ ایک عذاب ہے، اللہ جن پر چاہتا ہے اسے مسلط کردیتا ہے اور مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے باعث رحمت بنادیاہے۔ جب کہیں طاعون پھیلے تو جو بھی مسلمان اپنے اس شہر میں صبر کرکے بغرض ثواب قیام کرے، نیز اس کایہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جو مصیبت قسمت میں لکھ دی ہے وہی پیش آئے گی، اللہ کے ہاں اسے شہید کا ثواب ملے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3474]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس امت پر اللہ کی بہت مہربانی ہے کیونکہ جو بیماری دوسری امتوں کے لیے بطور عذاب مسلط کی گئی تھی وہ اس امت کے لیے باعث رحمت بنا دی گئی ہے۔ اس حدیث کے مطابق طاعون سے مرنا شہادت صغریٰ ہے زمانہ طاعون میں ثواب کی نیت سے وہاں قیام کرنا بھی خیرو برکت ہے مذکورہ حدیث میں ایسے شخص کو شہادت کی بشارت دی گئی ہے اگرچہ وہ زمانہ طاعون کے بعد کسی اور بیماری کی وجہ سے فوت ہو۔ 2۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے منقول ہے کہ وہ طاعون کے زمانے میں اپنے بیٹوں کو دیہات روانہ کردیتے تھے شاید انھیں مذکورہ حدیث نہیں پہنچی ہو گی۔ واللہ أعلم۔ (عمدة القاري: 228/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3474
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5734
5734. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق سوال کیا تو اللہ کے نبی ﷺ نے انہیں بتایا: طاعون (اللہ کا) عذاب تھا وہ اسے جس پر چاہتا بھیج دیتا، پھر اللہ تعالٰی نے اس کا اہل ایمان کے لیے باعث رحمت بنا دیا۔ اب کوئی بھی اللہ کا بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے جہاں طاعون پھوٹ پڑا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ جو کچھ اللہ تعالٰی نے اس کے لیے لکھ دیا ہے وہ اس کو ضرور پہنچ کررہے گا تو اس کو شہید کا سا ثواب ملے گا۔ نضر بن شمیل نے داود سے روایت کرنے میں حبان بن ہلال کی متابعت کی ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:5734]
حدیث حاشیہ: (1) طاعون کی وجہ سے اجروثواب کا حق دار بننے کے لیے دو شرطیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ وہ صبر و استقامت کے ساتھ اسی مقام پر ٹھہرا رہے، وہاں سے بھاگ کر کسی دوسری جگہ نہ جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہے، وہاں ٹھہرتے ہوئے کسی قسم کی پریشانی کو اپنے دل میں جگہ نہ دے۔ اگر اس کا گمان ہو کہ یہاں سے نکلنے میں اسے نجات مل جائے گی تو اسے ثواب سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا، خواہ وہ طاعون سے وہاں مر جائے۔ اور اگر وہ ان صفات سے متصف ہے تو اسے شہید کا ثواب ملے گا اگرچہ اسے طاعون کی وجہ سے موت نہ آئے۔ اس کے تحت تین صورتیں ہیں: ٭ ان صفات کا حامل ہو اور طاعون کی وجہ سے وہاں موت آ جائے۔ ٭ وہاں طاعون سے متاثر ہو لیکن اسے اس وجہ سے موت نہ آئے۔ ٭ وہ طاعون سے متاثر نہ ہو اور اس کے بغیر موت آ جائے۔ (2) بہرحال جو شخص صبر کرتے اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایسے مقام سے نہ نکلے جہاں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی اور وہ طاعون کے مرض سے نہ مرے تو اسے شہید کے مثل ثواب ہو گا اور اگر وہ مر جائے تو وہ شہید کے حکم میں ہے۔ (فتح الباری: 10/238)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5734