44. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الملک میں) ارشاد ”اپنی بات آہستہ سے کہو یا زور سے اللہ تعالیٰ دل کی باتوں کو جاننے والا ہے۔ کیا وہ اسے نہیں جانے گا جو اس نے پیدا کیا اور وہ بہت باریک دیکھنے والا اور خبردار ہے“۔
(44) Chapter. The Statement of Allah: “And whether you keep your talk secret or disclose it. Verily, He is the All-Knower of what is in the breasts (of men). Should not He Who has created know? And He is the Most Kind and Coueteous (to His slaves), All-Aware (of everything).” (V.67:13,14)
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نے، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو خوش آوازی سے قرآن نہیں پڑھتا وہ ہم مسلمانوں کے طریق پر نہیں ہے۔“ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سوا دوسرے لوگوں نے اس حدیث میں اتنا زیادہ کیا ہے یعنی اس کو پکار کر نہ پڑھے۔
Narrated Abu Salama: Abu Huraira said, "Allah's Apostle said, 'Whoever does not recite Qur'an in a nice voice is not from us,' and others said extra," (that means) to recite it aloud."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 618
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7527
حدیث حاشیہ: اگلی حدیث اوراس حدیث سے امام بخاری یہ نکالا کہ ہمارے منہ سے جو قرآن کے الفاظ نکلتے ہیں وہ الفاظ قرآن غیر مخلوق ہیں مگرہمارا فعل مخلوق ہے۔ امام بخاری نےفرمایا کہ جومجھ سے یوں نقل کرتا ہے کہ لفظي بالقرآن مخلوق وہ جھوٹا ہے میں نے یہ نہیں کہا بلکہ صرف یہ کہا تھا کہ ہمارے افعال مخلوق ہیں اور بس۔ قرآن مجید اس کا کلام غیرمخلوق ہے یہی سلف صالحین اہل حدیث کاعقیدہ ہے اور یہی امام بخاری کا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7527
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7527
حدیث حاشیہ: 1۔ مذکورہ احادیث مختلف الفاظ سے بیان ہوئی ہے۔ روایت کے آخر میں باآواز بلند تلاوت کرنے کا اضافہ راوی حدیث محمد بن ابراہیم التیمی کا بیان کردہ ہے۔ (فتح الباري: 625/13) حدیث میں بیان کی گئی وعید کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا انسان دین سے خارج ہے بلکہ قرآن مجید کو خوبصورت آواز سے نہ پڑھنے والارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش الحانی اور باآواز بلند قرآن کی تلاوت کیاکرتے تھے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ ہمارے منہ سے جو قرآن کے الفاظ نکلتے ہیں وہ غیر مخلوق مگر ہماری زبان کا حرکت کرنا اور ان الفاظ کا ادا کرنا ہمارا فعل ہے اور یہ فعل مخلوق ہے۔ گویا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تلاوت اور متلو میں فرق کو واضح کیا ہے کہ قرآنی الفاظ کو خوبصورت انداز سے پڑھنا اورباآواز بلند ادا کرنا یہ ہمارا فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے، ہم اس کے خالق نہیں ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7527