مہری کے آزاد کردہ غلام یزید بن ابی سعید نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ نے بنولحیان کی طرف ایک لشکر روانہ کیا اور فرمایا: "ہر دو آدمیوں میں سے ایک آدمی (جہاد کے لیے نکلے) اور فرمایا: "تم میں سے جو شخص بھی (جہاد کے لیے) نکلنے والے کے اہل و عیال اور مال و متاع کی اچھی طرح دیکھ بھال کے لیے پیچھے رہے گا، نکلنے والے کے اجر میں سے آدھا اسے ملے گا۔" (یعنی جہاد کرنے والے اور پیچھے خیال رکھنے والے دونوں کے لیے ثواب ہے۔ پیچھے رہ کر خیال رکھنے والے کو بھی گھر میں رہتے ہوئے آدھا ثواب مل جائے گا۔)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو لحیان کی طرف ایک دستہ یہ کہہ کر روانہ فرمایا، ”ہر گھر میں سے ایک مرد نکلے“ پھر گھر بیٹھنے والے کو فرمایا: ”تم میں سے جس نے روانہ ہونے والے کے اہل اور اس کے مال میں بہترین نیابت کی، اس کو نکلنے والے کے آدھے اجر کے برابر ثواب ملے گا۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4907
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جو انسان جہاد میں بالفعل حصہ لیتا ہے، اس کو دو ثواب ملتے ہیں، اجر اصل اور اجر فضل (اضافہ وزیادتی) تو اس کی نیابت بالخیر کرنے والے کو اصل اجر کا نصف کے برابر ملتا ہے اور اضافہ یا تضعیف تو صرف بالفعل حصہ لینے والے کے لیے ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4907
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2510
´جہاد کے بدلے میں کون سی چیز کافی ہے؟` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو لحیان کی طرف ایک لشکر بھیجا اور فرمایا: ”ہر دو آدمی میں سے ایک آدمی نکل کھڑا ہو“، اور پھر خانہ نشینوں سے فرمایا: ”تم میں جو کوئی مجاہد کے اہل و عیال اور مال کی اچھی طرح خبرگیری کرے گا تو اسے جہاد کے لیے نکلنے والے کا نصف ثواب ملے گا۔“[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2510]
فوائد ومسائل: مذکورہ بالا حدیث سے یہ سمجھا گیا ہے کہ جو شخص مجاہد کے اہل خانہ کی عمدہ طور سے خبر گیری کرے تو ا س کو بھی مجاہد کی طرح پورا ثواب ملتا ہے۔ اور اس دوسری حدیث میں آدھے ثواب کا ذکر آیا ہے۔ تو ان میں تطبیق اس طرح ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ اگر ان دونوں افراد کے مجموعی ثواب کو آدھا آدھا کیا جائے تو دونوں کےلئے برابر ہوجاتا ہے۔ اور اس طرح تعارض نہیں رہتا۔ مگر راقم مترجم کا خیال ہے۔ کہ اگر پیچھے رہنے والے نے اس رکنے کے عمل کو ترجیح دی ہو تو اسے آدھا ثواب ملے گا۔ لیکن اگر یہ دونوں ہی قتال میں شریک ہونے کے شائق ہوں اورامیر کسی ایک کو قتال کے لئے منتخب کرے۔ اور دوسرے کو اس کے اہل خانہ کی خدمت کا پابند کرے۔ تو اس طرح یہ دونوں ہی ثواب میں برابر ہوں گے۔ واللہ اعلم
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2510