الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4757
´خوارج کے قتل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ کی لائق شان حمد و ثنا بیان فرمائی، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا: ”میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں، کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا نہ ہو، نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا، لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایسی بات بتا رہا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی: وہ کانا ہو گا اور اللہ کانا نہیں ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4757]
فوائد ومسائل:
دجال کا لفظ دجل سے اسم مبالغہ ہے اور معنی ہیں قیامت سے پہلے ایک شخص ظاہر ہو گا جو مختلف شعبدہ بازیوں سے لوگوں کے ایمان پر حملہ آور ہو گا اور اپنی الوہیت کا دعوی کرے گا۔
اس کا یہ فتنہ سب فتنوں سے بڑھ کر ہو گا۔
اس کی ظاہر علامات اور اس کے اعمال کا بیان احادیثکی سب کتب میں موجود ہے۔
آخر میں اس کا قتل سید نا حضرت عیسی ؑکے ہاتھوں سے ہو گا۔
1: دجال کا سب سے بڑا دجل اور فتنہ مختلف شعبدے دکھا کر اپنی الوہیت کا اقرارکرانا ہو گا۔
2: اللہ عزوجل صفت عین (آنکھ) سے وصوف ہے اور اس کی آنکھیں ہیں اور دجال کا عیب یہ بتایا گیا ہے کہ وہ داہنی آنکھ سے کانا ہو گا۔
وصف باری تعالی کی بابت قرآن مجید میں ہے: اللہ کے حکم کے مطابق صبر کیجیے۔
بلا شبہ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اللہ عزوجل کی تمام صفات پر ہم اہل السنتہ والجماعتہ کا ایمان ہے، ہم ان کو کوئی تاویل نہیں کرتے۔
ہم نہ ان کو معطل سمجھتے ہیں نہ انکار کرتے ہیں اور نہ تشبیہ دیتے ہیں، بلکہ یہ ویسی ہی ہیں جیسی اس کی ذات والاشان کے لائق ہیں ان کی حقیقت کی ٹوہ میں لگنا اور ان کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔
اس لیے کہ ہماری عقل اور ادارک اس کو پا ہی نہیں سکتے۔
ٹوہ لگانے سے محض پر یشان خیالی پیدا ہو گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4757