سوید بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی رضی اللہ عنہ دونوں ہجر سے کپڑا لائے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، آپ نے ہم سے پاجاموں کا مول بھاؤ کیا، ہمارے پاس ایک تولنے والا تھا جو اجرت لے کر تولتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”او تولنے والے! تولو اور پلڑا جھکا کر تولو“۱؎۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2220
´وزن کے وقت پلڑا جھکا کر (زیادہ) تولنے کا بیان۔` سوید بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی رضی اللہ عنہ دونوں ہجر سے کپڑا لائے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، آپ نے ہم سے پاجاموں کا مول بھاؤ کیا، ہمارے پاس ایک تولنے والا تھا جو اجرت لے کر تولتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”او تولنے والے! تولو اور پلڑا جھکا کر تولو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2220]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کپڑے کی تجارت شرعاً جائز ہے۔
(2) درآمد برآمد کا کاروبار جائز ہے۔
(3) شلوار ایک اچھا لباس ہے۔
(4) ماپنے تولنے کی اجرت لینا جائز ہے، اور اس طرح ہر وہ کام جس میں جسمانی محنت ہو اور وہ شرعی لحاظ سے جائز ہو، اس کی مزدوری لینا درست ہے۔
(5) تولتے وقت جھکتا تولنا حسن اخلاق میں شامل ہے۔ لیکن کم تول کر دینا بددیانتی اور کبیرہ گناہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2220