عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بکری تو جنت کے جانوروں میں سے ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7439، ومصباح الزجاجة: 810) (صحیح)» (سند میں زربی بن عبد اللہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، نیزملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1128)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا قال البوصيري: ”زربي (بن عبد اللّٰه) متفق علي ضعفه“ ضعيف (تقريب: 2013) وللحديث طريق آخر مظلم عند الخطيب (435/7) وللحديث شواهد ضعيفة في الصحيحة للألباني (1128)! انوار الصحيفه، صفحه نمبر 461
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2306
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حلال جانور ہے۔ اس کا گوشت اور دودھ مفید ہے، اس لیے بکریاں پالنا اور ان کا گوشت اور دودھ استعمال کرنا چاہیے۔
(2) اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ان جانوروں میں سے ہے جنہیں اللہ کی راہ میں ذبح کیا جاتا ہے اور عید کے موقع پر ان کی قربانی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے جنت حاصل ہوتی ہے۔
(3) اس حدیث کی سند میں ایک راوی ”زربی بن عبد اللہ“ ضعیف ہے، جس کی وجہ سے ہمارے فاضل محقق نے اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جب کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے الصحیحہ میں صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیے: (الصحيحة، رقم: 1128)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2306